اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-mabdullah_87@hotmail.com

Telephone:-          

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت26-05-2010

آہ! اے اسلام

کالم۔۔۔ محمد عبداللہ شارق


مانا کہ ہم بہت پارسا اور ”صوفی با صفا“ ہیں ۔زمانہ کی خرابیوں ، غلاظتوں اور آلودگیوں سے ہمارا کیا تعلق؟موبائل فون پر ہم صرف کال کرنا یا سننا جانتے ہیں ۔ نوجوان نسل کو اس شیطانی کھلونے کے ذریعہ جس طرح گم راہی اور بے راہ روی کی اندھی کھائی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ،اس کی ہمیں کیا خبر ؟ ہم اخبار تو پڑھ ہی لیتے ہیں مگرہماری تقوی شعار آنکھیں ان حیا باختہ اشتہارات اور تصاویر کی طرف اٹھتی ہی نہیں جن میں باقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت اور منصوبہ بندی کے ساتھ رفتہ رفتہ اور چپکے چپکے تیزی لائی جارہی ہے ۔ سینماو ¿ں کی سرگرمیوں سے ویسے ہی ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے اشتہارات پر تو نگاہ پڑجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کام کاج کی غرض سے ہم گھر سے باہر قدم ضرور رکھتے ہیں ، لیکن نگاہیں ایسی جھکی ہوئی اور زمین میں پیوست ہوتی ہیں کہ فحاشی اور بے حیائی کی ”ضیاءپاش کرنیں“ بکھیرتے جہازی سائز کے سائن بورڈز تو درکنار ، بعض اوقات جانبِ مخالف سے آتی گاڑی تک سے معانقہ ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے ۔
شرم وحیاءدینِ اسلام کا ایک بہت ہی اہم شعبہ ہے۔ بعض احادیث کے مطابق تو یہ ایک صفت باقی تمام ایمانی صفات کی ”امام “ ہے ۔ اس کے بغیر نہ تو کما حقہ نیک اعمال کو بجالاناممکن ہے اور نہ ہی گناہوں سے اجتناب ۔اس بات سے قطعا انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ بلند وبالا اور اعلی وارفع خصلت جن خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے ،وہ قدرت کے منتخب اور چنیدہ لوگ ہوتے ہیں ۔ اس لیے اگرہم میں سے کسی کو یہ حاصل ہے تو اسے اس پر سجدہ ¿ شکر بجالانا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بات یہاں پر ختم ہوجاتی ہے ؟ذراسوچئے کہ یہ ایک انفرادی عمل اور صفت ہے ، اگر چہ اس کی اہمیت سے بھی ہرگز انکار ممکن نہیں ہے ،مگر وہ جو صرف مو ¿من ہی نہیں ، جماعت مو ¿منین کی راہ بری او رقیادت کا دعوی بھی رکھتے ہیں ، وہ محض اس قدر کرلینے سے اپنی ذمہ داریو ںسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں ؟ وہ کہ جنہیںملک میں تحریکاتِ نفاذِ اسلام کی سروری کا دعوی ہے اور بے دین حکم رانوں سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ جن کا ماٹو ہے ، وہ اگر دشمن کی پیش رفت اور باطل کی پیش قدمی سے یوں بے خبر اور لاعلم رہیںتوکیا وہ اس طرح سے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے اور کیا پھر روزِ محشر ان کے انفرادی اعمال انہیں بارگاہِ رب ذو الجلال میں سرخ رو کر سکیں گے ؟
اس گفتگو سے ہماری غرض یہ نہیں ہے کہ آج کے بعد ہم بھی ” قومی گنگا “ میں چھلانگ لگاتے ہوئے شرم وحیاءکے زریں اسلامی تقاضوں کو اپنے ہی ہاتھوں دفن کرکے پوری ڈھٹائی اور بے باکی کے ساتھ اپنی نطروں کو گناہ آلود کر لیں ، ہر گز نہیں۔ نفاذِ اسلام کی عملی جد وجہد کا سب سے اولین تقاضا یہی ہے کہ اس کا آغاز ہم اپنے ہی چھ فٹ کے وجود سے کریں ۔ دوسروں کو خداوندِ عالم کا مطیع وفرماں بردار بنانے کے شوق میں اپنے ہی وجود سے تقوی وطہارت کا لبادہ اتارپھینکنا دین ودانش کا تقاضانہیںاور نہ ہی ” عمارت کی مضبوطی“ کا ٹائٹل لگا دینے سے عمارت کے اندر نقب لگانا جائز عمل بن جاتاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عفت وعصمت کی سرحدوں پر خوب اچھی طرح سے اپنے پاو ¿ں جماتے ہوئے دوسروں کو بھی یہاں جمائیں ، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے منصبی فریضہ کا احساس کرتے ہوئے کم از کم ایک ایسی واچ کمیٹی بھی تشکیل دے دیں حو سوسائٹی میں پنپنے والے لادینی رویوں پر بھر پور نظر رکھے ۔ ان کے سد باب کے لیے مکمل مہارت اور بیدارمغزی کے ساتھ صحافتی ذرائع بھی استعمال کرے اور قانونی عدالتی چارہ جوئی کا راستہ بھی اختیار کرے ۔
گھبرائیں نہیں، عدالتی چارہ جوئی سے زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا ناں کہ ہم وہ مقدمہ ہار جائیں گے تو پھر کیا ہوا؟” حرکت میں بہرحال برکت ہے “ ایک ہلچل تو رہے گی جس سے اپنی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہونے سے بچی رہیں گی ، عوام کے ذہنوں میں ” اسلام اور پاکستان“ کا سبق تازہ ہوتا رہے گا اور نام نہاد روشن خیالوں کو یہ پیغام بھی ملتا رہے گا کہ نظریہ ¿ پاکستان کے محافظ مرکھپ نہیں گئے ، بلکہ زندہ ہیں اور پوری طرح چوکنے بھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے دوسرے درجہ کے فوائدبھی محض ان لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بیان کیے جارہے ہیںجنہوں نے شکست خوردگی کا ایک خود ساختہ مفروضہ اپنے تئیں قائم کرکے رکھا ہوا ہے ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ بعض غیر اسلامی اقدامات کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے کیسز تو اتنے مضبوط ہیںکہ اگر ہمت اور دانائی کے ساتھ ان کی پےروی کرنے والے ماہرین میسر آجائیں تو کوئی وجہ نہیںکہ سو فی صد کامیابی ہمارے حصہ میں نہ آئے ۔ آج تک ہمارے تمام تر دینی مطالبات کا محور اور مدار (قادیانیت سے متعلق شقیں مستثنی ہیں) آئین کا آرٹیکل نمبر 227 رہا ہے جس کی رو سے ملک میںنہ تو کوئی ایسا قانون بنایا جاسکتاہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو اور نہ ہی باقی رکھا جاسکتاہے ۔لیکن ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ صرف اسی ایک پر قناعت کرنا بھی ہماری غلطی تھی ۔ بے شک ہماری اصل منزل یہی شق اور اس کی مکمل وجامع عملداری کا قیام ہے ، مگر جب تک اس کے فی الفور حصول کے راستے میں کچھ رکاوٹیںم حائل ہیں تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہیں ؟جو کچھ ہوسکتاہے ، خواہ جزوی طور پر ہی سہی تواس میں تو تاخیر کیوں کی جائے؟
ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔آئین کا آرٹیکل نمبر 20 جو اگر چہ اس حوالہ سے بجا طور پر علمائِ کرام کے نزدیک ہمیشہ محتاجِ اصلاح سمجھاجاتارہاہے کہ اس میں وطن ِ عزیزکے اندر کسی بھی مذہب کی تبلیغ کی کھلی چھٹی دی گئی ہے ، مگر دیکھا جائے تو آج یہی آرٹیکل بہت سے غیر اسلامی اقدامات خصوصا فحاشی وعریانی کے منہ زور ریلے کے آگے بند باندھنے کے لیے عدالتی چارہ جوئی میں ہمارے لیے کلیدی معاون کا کرداربھی ادا کرسکتاہے ۔ آرٹیکل میں ہر مذہب والوں کو مذہبی آزادی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گےا ہے ۔ یوں اس کے اندر اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ عمومی سطح پر اور عوامی فضاءمیں کو ئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جس سے کسی مذہب کے پیروکاروں کی آزادی متاثر ہو اور ا ن کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کوئی دقت پیش آئے ۔ چنانچہ ماہرینِ قانون نے اس آرٹیکل کی تشریح میںیہ بات وضاحت سے لکھی ہے۔
اب آپ جانئے کہ اسلا م ایک مکمل طرزِ حیات ہے ۔ یہ صرف چند رسومات کا نام نہیں۔ اس کی تعلیمات اور ہدایات آنکھ ،کان اور زبان کے استعمال تک پھیلی ہوئی ہیں کہ انہیں کہاں استعمال کرنے کی اجازت ہے اور کہاں نہیں؟(یہ اور بات ہے کہ بدعمل مسلمان ان کا لحاظ نہیں کرتے )اس تناظر میں دیکھا جائے توسڑکوں ،چوراہوں اور اخبارات ومجلات میںلگائی گئی حیاسوز تصاویر صوم وصلوة کے پابند باکردار مسلمانوں(جن کی تعداد بلاشبہ لاکھوں میں ہے ) کوہر لمحہ مذہبی آزادی کے فقدان کا احساس دلاتی ہیںاور ایسی تصاویر پر بے دھیانی میںنظر پڑ جانے سے ان کی طبیعت پر تکدر کی چوٹ پڑ تی ہے ۔یہ لوگ اس آرٹیکل کی بنیاد پر فحاشی کی علانیہ گرم بازاری کے خلاف عدالت میں استدعاءدائر کر سکتے ہیں۔فرض کریں کہ اگر عدالتی فیصلہ ان کے خلاف آتاہے تو پھر انہیں یہ پوچھنے کا قانونی حق حاصل ہے کہ آیا آئین کے اندر یہ شق صرف اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے رکھی گئی ہے ؟اور یہ کہ بے چاری اکثریت کویہ حق کیوں حاصل نہیں؟
اسی طرح سے آج کل موبائل کمپنیز نے اپنے کسٹمرز کو ایک سروس پرووائڈ کر رکھی ہے کہ آپ کسی بھی نمبر پر کوئی گانا بھجوانا چاہیں تو بھجوا سکتے ہیںخواہ دوسرا آدمی کوئی باعمل مسلمان ہو اور وہ گانا سننا چاہتاہو یا نہیں۔بنیاد پسند اور غیر ت مندمسلمان آئین کے آرٹیکل نمبر 20 کی بنیاد پر موبائل کمپنیز کی اس سروس کے خلاف بھی ڈنکے کی چوٹ پر قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔قلم تودوڑا چلا جارہا ہے ،مگر کالم کا پیٹ ”مزید“ کا متحمل نہیں، اس لیے اجازت!
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team