اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-jawwab@gmail.com
 

Telephone:-1-514-970-3200       

 

 

 

تاریخ اشاعت09-05-2010

سرگنگا رام: ہیرو بن کر آیا، درویش کی طرح بانٹ گیا

 

اس نے ایک ہیرو کی طرح فتح حاصل کی اور ایک درویش کی طرح سب کچھ تقسیم کر دیا۔“ یہ الفاظ انگریز گورنر پنجاب سر میلکم ہیلے نے سر گنگا رام کے بارے میں ادا کئے تھے۔ سر گنگا رام کا نام کسی متعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مال روڈ پر واقع عالیشان عمارتیں آج بھی سر گنگا رام کی عظمت کی گواہی دے رہی ہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق اور ذہین انجینئر، قابل زرعی سائنسدان اور سماجی کارکن تھے۔ ان کے شہر لاہور پر بے شمار احسانات ہیں۔ آج لاہور کی بلند و بالا اور شاندار عمارتیں ان کے ہاتھوں کی کرشمہ سازیوں کی گواہ ہیں۔ لاہور میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں جبکہ سرگنگا رام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ جالک سول لائینز)، سر گنگا رام گرلز سکول (موجودہ لاہور کالج فار ویمن)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کئے تھے۔ گنگا رام اپریل 1851ءمیں شیخوپورہ کے قریب منگٹانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دولت رام پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ گنگا رام کی ابتدائی زندگی کسی افسانے سے کم نہیں ہے۔ ان کا خاندان ضلع مظفرنگر سے ہجرت کر کے پنجاب میں منگٹانوالہ میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا


جب مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ مغلیہ سلطنت نا کام ہو چکی تھی۔ اور کسی کی بھی جان اور مال محفوظ نہیں تھی۔ جبکہ دور افتادہ صوبوں اور علاقوں پر افغان، جاٹ، راجپوت، مرہٹے، سکھ اور مقامی راجے اپنی ریاستیں بنائے بیٹھے تھے۔ پنجاب میں سکھوں کی حکومت کا شیرازہ بکھر گیا اور انگریز پنجاب پر قابض ہو گئے۔ دولت رام اپنے چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ اپنی تمام تر خاندانی خصوصیات کا حامل مہم جو نوجوان تھا ۔جو کچھ کر دکھانا چاہتا تھا۔ دولت رام اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے خوابوں کی سر زمین پنجاب پہنچا اور اپنی جونیئر انسپکٹر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ مانگٹانوالہ لاہور سے چالیس میل اور دوسری جانب سے باب گرو نانک کے حوالے سے مقدس شہر ننکانہ صاحب سے چودہ میل کے فاصلے پر آباد تھا۔ دفاعی نقطہ نظر سے مانگٹانوالہ پر انی شاہی گزر گاہ پر قائم تھا۔ جو مغل حکمرانوں نے شمال مغربی علاقوں کو سلطنت مغلیہ کے مرکز دہلی سے مربوط کرنے کیلئے بنائی تھی ۔یہ تعیناتی شاندار کامیابیوں کا اعتراف سمجھی جاتی تھی۔ یہیں پر دولت رام کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام گنگا رام رکھا گیا۔ دولت رام اپنے کام میں یکتا تھا اور اپنے فرائض نہایت ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیتا تھا۔ لیکن اس کا یہی رویہ اس کیلئے مشکلات کا سبب بھی بن گیا۔ چنانچہ اس نے مانگٹانوالہ کو اپنے خاندان سمیت خیر باد کہا اور امرتسر منتقل ہو گیا۔ جہاں اس نے ضلعی عدالت میں مسودہ تحریر کرنے والے خطاط کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اس دوران گنگا رام نے مستقل مشکل حالات میں پرورش پائی۔ چار برس کی عمر میں گنگا رام نے ایک نجی سکول سے فارسی، خطاطی اور ریاضی کے تعلیم کا آغاز کیا۔ گنگا رام اپنی تعلیم میں بھر پور دلچسپی لیتے اور اپنے ہم عمروں میں سے کہیں زیادہ محنت کرتے۔ حیرت انگیز طور پر گنگا رام میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گئے۔ البتہ انہوں نے دوسری کوشش میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا اور 1869ءمیں لاہور آکر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ اس وقت اس کالج کو قائم ہونے محض چار برس کا عرصہ ہوا تھا۔ اور اس کی کلاسیں اندرون شہر میں راجہ دھیان سنگھ کی حویلی میں ہوتی تھیں۔ گنگا رام کی لاہور آمد اس کی زندگی میں ایک انقلاب لے کر آئی۔ اندرون شہر کی سرگرمیاں، دھیان سنگھ کی حویلی کا طرز تعمیر، قد آور دانشور لوگوں سے میل ملاقات اور تنہائی کی زندگی نے گنگا رام کو بے حد متاثر کیا۔ اندرون شہر میں سوتر منڈی کے مقام پر کرائے کا ایک کمرہ حاصل کر لیا۔ گنگا رام کی ریاضی کے مضمون میں غیر معمولی دلچسپی تھی اور وہ غیر محسوس کن طریقے سے انجینئرنگ کی جانب مائل ہوتے چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج میں دو سال ریاضی کی تربیت کے بعد 1871ءمیں تھامس کالج، روڑ کی میں پچاس روپے ماہانہ وظیفہ کے ساتھ داخلہ ان کی نئی زندگی کا پہلا قدم ثابت ہوئی۔ روڑکی میں انہیں پرنسپل کرنل میکلیجین نے انہیں غیر معمولی ذہین طلب علم قرار دیا اور ان کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ 1873ءمیں گنگا رام نے فائنل امتحان پاس کیا اور پراجیکٹ پیپرز کی لسٹ میں میرٹ پر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس شاندار کامیابی پر انہیں گولڈ میڈل دیا گیا اور لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر اپرنٹس شپ کیلئے تعینات کیا گیا۔

اس وقت ان کی عمر بائیس برس تھی، یہ ان کی عملی زندگی کا آغاز تھا۔ 1873ءمیں گنگا رام گوردا سپور ڈویژن میں اسسٹنٹ انجینئر کی حیثیت سے تعینات کر دئیے گئے۔ بعدازاں امر تسر اور ڈیرہ غازی بھی تعینات رہے۔ جہاں انہوں نے اپنے دور اندیشی اور ذہانت سے قبل قدر کام کیا۔ جس کی معترف انگریز حکومت بھی تھی۔ جس کے باعث انگریز حکومت نے انہیں خصوصی طور پر دو سال کیلئے واٹر ورکس اور ڈرینج کی تربیت حاصل کرنے کیلئے بریڈ فورڈ بھیجا۔ انگلینڈ سے واپسی پر انہیں پشاور میں پانی کی فراہمی و نکاسی کے منصوبوں کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بعدازاں انہوں نے ایسے ہی منصوبے امبالہ، کرنال اور گوجرانوالہ میں بھی متعارف کروائے۔ بارہ برس بطور اسسٹنٹ انجینئر فرائض سر انجام دینے کے بعد انہیں لاہور کے ایگریکٹیو انجینئر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اسی عرصہ میں انہوں نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں تعمیر ہونے یا دگار عمارتیں کتھیڈرل چرچ اور ہائی کورٹ کی عمارتوں کی ڈیزائن تیار کئے جوان کی محنت اور تعمیراتی ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی عرصہ کے دوران چیف انجینئر آیئنز پر کنٹر نے انہیں ایچی سن کالج کی تعمیر کیلئے سپیشل انجینئر مقرر کیا۔ جب اس کالج کی سرخ اینٹوں سے بنی خوبصورت عمارت اپنے ارد گرد پھیلے خوبصورت سایہ دار باغ کے ساتھ مکمل ہوئی تو گنگا رام چیف انجینئر کے عہدے پر تقری پا چکے تھے۔ اس عہدہ پر بارہ سال کام کے دوران گنگا رام نے بھر پور ذمہ داری سے اپنے فرائض سر انجام دئیے۔ اس عرصہ کے دوران ان کی تعمیر کی ہوئی عمارتیں افسانوی گرواروں کی طرح مشہور ہوئیں۔ انہوں نے لاہور میوزیم، میو سکول آف رآٹس (موجودہ این سی اے ) جنرل پوسٹ آفس، میو ہسپتال کی لبرٹ و کٹر شاخ اور گورنمنٹ کالج کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ جیسی یادگار عمارتوں کے ڈائرین خود تیار کئے تھے۔ مال روڈ پر ایچی سن کالج سے لے کر این سی اے تک میوزیم، جی پی، گورنمنٹ کالج جیسی عمارتیں گنگا رام کی تخلیقی سوچ اور ہنر کی عکاس ہیں۔ ان کی تعمیر کی ہوئی عمارتوں میں مقامی رنگ جھلکتا ہے۔ محض لاہور ہی ان کی تعمیراتی سرگرمیوں کا مرکز نہیں رہا۔ فیصل آباد، سرگودھا اور شیخوپورہ میں عدلیہ اور انتظامیہ کے دفاتر کی عمارتیں بھی ان کی مہارت کا کرشمہ ہیں۔ انہی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انہیں، رائے بہادر، کا خطاب دیا تھا۔ بی ایک بیدی اپنی تصنیف، صحرا کی فصل، سر گنگا رام، میں گنگا رام کے فن تعمیر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ”گنگا رام کے فن کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ”گنگا رام ہمیشہ نئے طریقوں اور تجربات سے توانائی بچاتے، اعداد و شمار کا پرانہ طریقہ تھکا دینے والا تھا اور اس میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا تھا۔ لہٰذا گنگا رام کے ماہر اور موجد دماغ نے نیا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ سلائیڈ رول سے دیواروں، شہتیروں اور ٹرسز کی تمام اشکال اور ان کا سائز ناپنے کا کام لیتے تھے۔ انہوں نے حرارت سے محفوظ سیدھی چھتوں اور ایک سے دوسری اینٹ میں اینٹ پھنسا کر دیوار تعمیر کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ یہ ایجادات انجینئرنگ کی دنیا میں انتہائی مہارات کی حامل بنیں اور آج بھی پوری دنیا عمارتوں کی تعمیر میں یہ طریقے رائج ہیں۔

“ لاہور میں وائر ورکس سکیم کا آغاز 1875ءمیں ہوااس وقت یہ منصوبہ نا مکمل تھا اور نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں تھا، گنگا رام اور نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں تھا۔ گنگا رام نے لاہور کی گلیاں پختہ کرائیں، نکاسی آب کے لئے نالیاں بچھائیں اور ملیریا جیسے موذی امراض کے خطرات کو کم کرنے کیلئے شہریوں کے معیار کو بہتر بنایا۔ گنگا رام کے تصورات اور مہارتوں کی نجی ماہر تعمیرات نے بھی تقلید کی۔ اس تناظر میں لاہور پر گنگا رام کے اثرات مزید گہرے نظر آتے ہیں۔ 1900ءمیں برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی ہندوستان آمد کے موقع پر انہیں شاہی دربار سجانے کی ذمہ داری لارڈ کرزن نے سونپی جو بہت سارے انگریز نو کر شاہی ملازموں کو ناگوار گزری۔ البتہ سرگنگا رام نے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے۔ تاہم ان کا نام نیو یارک کی اعزازی لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ جس سے دلبرداشتہ ہو کر سر گنگا رام 1903ءمیں ملازمت سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ انہیں ماضی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند کی جانب سے پنجاب میں 20 ایکٹر اراضی انعام کے طور پر دی گئی تھی۔ گنگا رام نے دریائے چناب کے قریب اس اراضی کو جنت نظیر بنا دیا۔ اس ویران اور بنجر علاقے میں انہوں نے اپنی زرعی باریک بینی اور کمال مہارات سے نہری نظام قائم کیا۔ بعدازاں انہوں نے مزیدز مین لیز پر لی اور رینالہ خورد کے مقام پر پاور سٹیشن انہوں نے اپنی ذاتی خرچ سے قائم کیا۔ حکومت پنجاب سے علیحدگی کے بعد گنگا رام نے پٹیالہ اور بنارس میں بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ پٹیالہ کے موتی باغ محل، سیکرٹریٹ ، وکٹوریہ گرلز سکول، عدالتیں، تھانے اور سٹی ہالی سکول گنگا رام کی مہارت کی گواہی دے رہی ہے۔ گنگا رام میں ان کا فارم پورے پنجاب میں ایک منفرد اہمیت کا حامل تھا۔ اس علاقہ کی بیش بہا پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ان کی ہی مرہون منت تھا۔ 1920ءمیں جب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرایڈورڈ میکلیگن نے اس علاقہ کا دورہ کیا تو وہ یہاں کی سر سبز و شاداب فصلیں دیکھ کر ونگ رہ گیا۔ گنگا رام نے پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل کیلئے گھوڑا ٹرام متعارف کروائی۔ ریل پٹڑیاں بچھائی گئیں۔ جن پر ٹرام نصب کی گئی جسے گھوڑے کی مدد سے کھینچا جاتا تھا۔ اس دور کی گھوڑا ٹرام آج بھی اس علاقے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ گنگا رام ناصر ف ایک ذہین ماہر تعمیرات اور ماہر زراعت تھے بلکہ وہ معاشرے میں مساوات اور رواداری کے فروغ میں بھی پیش پیش تھے۔ ہندو مسلم فسادات کے دوران انہوں نے دونوں مذاہب کے درمیان مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

خاص طور پر گائے کی قربانی کے مسئلے کے حوالے سے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور کا معروف ہیلے کامرس کالج سر میلکم ہیلے نے تعمیر کروایا تھا۔ دراصل یہ عظیم درسگاہ بھی سر گنگا رام کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ذاتی رقم اور گورنر پنجاب کی اجازت سے اس کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ شعبہ تعلیم کی تعمیر و ترقی کیلئے پنجاب یونیورسٹی کا ہیلے ہال اور مینارڈ ہال بھی گنگارام نے تعمیر کروایا تھا۔ گنگا رام نے اسی دوران خود کو فلاحی کاموں کیلئے وقف کر دیا۔ بیواﺅں کی دوبارہ شادی اور انہیں ہنر سکھانے کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموشوں ہیں۔ انہوں نے بے شمار لڑکیوں کی شادیاں کروائیں اور انہیں مختلف ہنر سیکھنے کے مواقع فراہم کیے۔ بعدازاں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے 1923ءمیں ایک ٹرسٹ کی بنیاد رکھی جسے سر گنگا رام ٹرسٹ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے اس ٹرسٹ کیلئے کثیر رقوم عطیہ کے طور پر دیں اور کئی عالیشان عمارات وقف کر دیں۔ 1921ءمیں سر گنگا رام نے لاہور کے مرکز میں زمین خریدی اور سر گنگا رام چیئرٹی ڈسپنسری تعمیر کروائی جس کی تعمیر پر ایک لاکھ اکتیس ہزار پانچ روپے لاگت آئی۔ اس ڈسپنسری میں غریب اور نادار مریضوں کا بلا معاوضہ علاج کیا جاتا تھا۔ بعدازاں اس کو جدید ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ جو صوبہ کا سب سے بڑا اور واحد خیراتی ہسپتال ثابت ہوا۔ 1923ءمیں اس کا چارج ٹرسٹ سوسائٹی نے سنبھال لیا اور مزید زمین خرید کی اس توسیع کی گئی۔ 1946ءمیں سر گنگا رام نے فیملی سر گنگا رام کے بیٹے سر بالک رام کے نام سے میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی۔ جسے 1947ءکے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں تبدیل کر دیا گیا۔ تقسیم کے بعد 1951ءمیں دہلی میں ایک ہسپتال سر گنگا رام کے نام سے تعمیر کیا گیا ہے۔ سر گنگا رام جدید لاہور کے معمار تھے۔ انہوں نے لاہور کی ایک نئی شکل دی۔ گنگا رام لاہور کی پہچان ہیں۔ لیکن تقسیم کے بعد ان کی احسانات اور ہماری احسان فراموشی پر اپنے ایک افسانے میں کچھ یوں طنز کرتے ہیں ”ہجوم نے رخ بدلا، اور سرگنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کیلئے آگئے بڑھا مگر پولیس آگئی، اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ تو وہ پکار اٹھے، اسے گنگا رام ہسپتال لے چلو۔“ سر گنگا رام کی زندگی کے آخری پانچ برس ان کی خدمات کے سر کاری اعتراف اور اعزازات سے بھر پور تھے۔ 1922ءمیں انہیں، سر، کا خطاب دیا گیا۔ 1924ءمیں پنجاب انجینئرنگ کانگریس کی صدارت کی دعوت دی گئی۔ جس میں ان کا خطاب نوجوان انجینئروں کیلئے سول انجینئرنگ کیلئے نئے راستے کھولتا ہے۔ 1925ءمیں انہیں حکومت نے امپریل بنک آف انڈیا کے گورنر کا عہدہ دیا گیا۔

اسی عرصہ کے دوران انہوں نے لاہور کے نواح میں ماڈل ٹاﺅن کے منصوبہ کی بنیاد رکھی اور دیوان کھیم چند کی بھر پور مدد کی جو اس منصوبہ کے خالق تھے۔ 74 برس کی عمر میں انہیں بطور زرعی سائنسدان ایگریکلچرل کمیشن کی رکنیت کا سب سے بڑا اعزاز ملا۔ سر گنگا رام نے اپنی عمر کے آخری ایام انگلینڈ میں گزارے۔ طویل اجلاس، رات بھر مطالعہ اور مختلف پریشانیوں کے سبب ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور 10 جولائی 1927ءکو اپنے گھر میں انتقال کر گئے۔ 12 جولائی 1927ءکو لاہور میں ان کے د کریا، کی رسم ادا کی گئی۔ جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ 15 اگست کو رائے بہادر سیوک رام اور ان کا بھائی گنگا رام کی وصیت کے مطابق ان کی راکھ کے ہمراہ لاہور آئے جسے بیوا گھر اور اپاہج آشرم کے قریب مقبرہ میں رکھ دیا گیا۔ آخری تقریب میں ٹاﺅن ہال گارڈن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سینکڑوں افراد جو گنگا رام کی خدمت کے معترف تھے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے موجود تھے۔ بعدازاں تمام افراد جلوس کی شکل میں اندون شہر سے ہوتا ہوا راوی کنارے پہنچا۔ جہاں گنگا رام کی آخری رسومات ادا کی گئی اور راکھ کو دفن کیا گیا۔ تقسیم ہند سے قبل اس کی سمادھی پر میلہ بھی لگتا تھا۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ 1992ءمیں سانحہ بابری مسجد کے بعد سر گنگا رام کی سمادھی کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا اور اس وقت بھی اس کی حالت زار شکستہ ہے۔ سر گنگا رام کی زندگی کا سفر تمام ہوا لیکن لاہور اور پنجاب پر ان کے احسانات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی لگائے ہوئے پودے اس وقت تناور درخت بن چکے ہیں۔ ٹھنڈی سڑک میں واقع سرخ اینٹوں کی عمارتیں شہر لاہور کی پہچان ہیں اور لاہور کے سینے پر گنگا رام کا نام ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team