مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کون ہیں؟

کراچی: افغان طالبان کے سربراہ ملااختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔
گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیبت اللہ افغان طالبان کے سابق چیف جسٹس اورمذہبی علماء کانفرنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
مولوی ہیبت اللہ کو عسکری سے زیادہ مذہبی رہنما سمجھا جاتا ہے اور وہ فوج اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواز کے حوالے سے طالبان کے بیشتر فتوے بھی جاری کرتے رہے ہیں۔
گارجین کے مطابق مبینہ طور پر افغان صوبے قندھار کے ضلع پنجوانی سے تعلق رکھنے والے ہیبت اللہ نورزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، طالبان کے روحانی مرکز سے تعلق ہونے کی وجہ سے جنوبی کمانڈروں میں بھی ان کا اثر روسوخ پایا جاتا ہے جو طالبان کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولوی ہیبت اللہ کا تعلق اشقزئی قبیلے سے ہے، جبکہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ الوکوزئی پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ہیبت اللہ اخونزادہ کی عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے اور وہ زیادہ تر افغانستان میں ہی رہے ہیں۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولوی ہیبت اللہ افغان طالبان کے ایک اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں، جو ملا اختر منصور کے نائب تھے۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ 25 مئی کو میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے پیغام میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو افغان طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا ہے
طالبان ترجمان کے مطابق مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان شوریٰ نے متفقہ طور پر امیر منتخب کیا، جبکہ سراج الدین حقانی اور ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نئے طالبان امیر کے نائب ہوں گے۔
خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پاک افغان سرحدی علاقے میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن علاقے کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی، جبکہ پاکستانی حکام کے مطابق ڈرون حملہ بلوچستان میں کیا گیا، جو ’ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی ہے۔
بعد ازاں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے میں 2 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم اور دوسرے کی شناخت ولی محمد کے نام سے ہوئی۔
ڈرون حمل میں ہلاک ہونے والے ولی محمد کی سفری دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر افغان طالبان امیر ملا اختر منصور ہوسکتا ہے، جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی اس حوالے سے تصدیق کی جائے گی۔
ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا اختر منصور کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آگئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال جون میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں، تاہم افغان طالبان نے ان خبروں کی تصدیق سے گریز کیا تھا۔
چند روز بعد طالبان نے ایک بیان میں ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دو سال قبل ہلاک ہوئے تھے اور ان کے بعد طالبان شوریٰ نے گروپ کی سربراہی ملا اختر منصور کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق مولوی ہیبت اللہ افغان طالبان کے سابق سربراہ ملاعمر سے عمر میں بڑے تھے، جو انھیں (اخونزادہ) کو اپنا استاد تصور کرتے تھے۔

پنھنجي راءِ لکو