پاکستا ن تحریک انصاف کےانتخابی منشورپیش کرنے کی تقریب میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان منشورپیش کرتے ہوئے کہاکہ آنے والی حکومت کے لیے معیشت بڑا چیلنج ہوگا، گزشتہ10سال میں قرضےبہت زیادہ بڑھے ۔
ملک میں محاصل کی وصولی کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے،معیشت بدحال ہونےسےروپے کی قدررپرزورپڑرہا ہے،اکثریت غریب ہورہی ہےایک چھوٹاساطبقہ امیرترہوتا جارہا ہے۔
مدینہ دنیاکی پہلی فلاحی ریاست ہے،پاکستان کےلیے رول ماڈل ہے،پاکستان کوایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں،مدینہ کی فلاحی ریاست کی بنیاد اصولوں پر رکھی گئی تھی،ہم بھی انہی اصولوں سے پاکستان کوفلاحی ریاست بنائیں گے ۔
منشورپرعملدرآمدکےلیےبڑی تبدیلیوں کی ضروری ہوگی، 90کی دہائی میں عوام کوڈیلیورکرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی رپشن ہی اداروں کوکرپٹ کرتی ہے اور انصاف نہیں ملتا ۔
خیبرپختونخوامیں ہم نےسب سےپہلےپولیس کوکرپشن سےپاک کیا،پولیس سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال ہوتی رہی،کرپشن نےپولیس کوکرپٹ کردیا تھا،کےپی میں پولیس ایکٹ پاس کیا، پولیس کےبعد ہم خیبرپختونخوامیں اسکولوں کاکریڈٹ لیتےہیں ۔ ہم نےادارے مضبوط کرنے ہیں اور ہیومن ڈیولپمنٹ کرنی ہے،اداروں کو مضبوط کرنےکےساتھ عوام پرسرمایہ کاری کریں گے۔
ریاست کی پہلی ترجیح عوام ہونی چاہیے،بیروزگاری کاخاتمہ اور تعلیم پرخصوصی توجہ دینی چاہیے،تاجربرادری کوکیسے سہولت دینی ہےیہ بھی ترجیح ہونی چاہیےانتخابی منشورمیں شامل ہےکس طرح بزنس کمیونٹی کوسہارادیں گے،ریاست کی ذمہ داری ہے کمزورطبقے کےساتھ کھڑی ہو۔انتخابی منشورمیں شامل ہےکس طرح بزنس کمیونٹی کوسہارادیں گے بیروزگاری کےخاتمے کےلیے ایک اسکیم لیکر آئیں گے، 5سال میں50لاکھ گھربنائیں گےجس سے لوگوں کوروزگارملےگا۔
بلین ٹری سونامی کی طرح ہاؤسنگ اسکیم لیکرآئیں گے،منصوبےپرعملدرآمد میں کامیاب ہوگئےتومعیشت اٹھےگی،منصوبےسےعملدرآمدسےلوگوں کونئےگھرملیں گے،منصوبےسےنئی تعمیراتی کمپنیاں آئیں گی،روزگارکامسئلہ حل ہوگا،منصوبےکےلیے پاکستان بلڈنگ ایسوسی ایشن سےمددلی جائےگی ۔
سی پیک کافائدہ اٹھانےکےلیےہمیں پوری تیاری کرناپڑے گی،سی پیک کےذریعےہم مزیدغیرملکی سرمایہ کاری لاسکتے ہیں،سی پیک گیم چینجرنہیں ہےیہ گیم چینجربن سکتا ہے ۔
خیبرپختونخوامیں غربت ختم کرنے کےلیےسیاحت کوفروغ دیا، حکومت ملی توسب سےپہلےسیاحت کےفروغ کےلیےگلیات میں کام کیا،گلیات میں سرکاری گیسٹ ہاؤسز سے2ارب روپے کمائے،دنیا میں کہیں اتنی خوبصورت جگہیں نہیں جتنی پاکستان میں ہیں،سوشل میڈیاکی وجہ سے سیاحت کو فروغ مل رہا ہے۔
پاکستان میں ریونیواکٹھاکرنےکانظام ہی نہیں ہے،ناکام پالیسیوں کی وجہ سےاکثریت غریب اوراقلیت امیرہورہی ہے،قرضےگزشتہ10سالوں میں بہت بڑھے ہیں،سماجی انصاف اور اصول ترقی کی بنیاد بنتے ہیں،پاکستان کے مسائل کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔
60 کی دہائی میں پاکستان میں بیوروکریسی غیر سیاسی تھی،ہم نےخیبرپختونخوامیں کرپشن پر پولیس والوں کو نکالا،
ایف بی آر میں اصلاحات تک پیسہ جمع نہیں ہوسکتا،ایف بی آر میں اصلاحات سب سے زیادہ ضروری ہیں،توانائی کا چیلنج سب سے بڑا ہے،برآمدات اورروپےکی قدرمیں کمی سےمہنگائی میں اضافہ ہورہاہے،جس طرح ہم حکومتیں چلارہےہیں اسےیکسرتبدیل کرناہوگا،تجارت کیسےبڑھائیں گے،آئی ٹی کو کیسے فروغ دینا ہے
خرچ کم کرکے آمدن بڑھائیں گے،لوگوں کو مراعات دیں گے تاکہ وہ ٹیکس ادا کریں،خرچےکیسےکم کرنےہیں اورآمدن کیسےبڑھانی ہے پلان بنالیاہے،عوام سےعہدہےٹیکس کا پیسہ انہی پرخرچ ہوگا۔
نیب،ایف آئی اےکومضبوط کرکے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے،عوام سمجھتےہیں ان کا ٹیکس ان پراستعمال نہیں ہوتا،عوام کاخیال ہےان کاپیسہ حکمرانوں کی عیاشی پرخرچ ہوتا ہے،اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کےمطابق ہرماہ10ارب ڈالر ملک سےباہر جاتا ہے،کرپشن پرقابو پانےکےلیےنیب اورایف آئی اےکومضبوط کریں گے،ادارےمضبوط ہوں گےتو کرپشن پرقابو پایاجائےگا، پاکستان کاقرضہ6ہزارارب سے27ہزارارب تک پہنچ گیا ۔