Telephone:- 0092
302 4500098 |
Email:-akramkhanfaridi@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔02-06-2011
|
ایبٹ
آباد میں آپریشن ہوا؟ |
کالم-------- محمد اکرم خان فریدی |
برصغیر
کے معروف بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کھیتوں میں سے گزر رہے تھے کہ
وہاں پر ہل چلاتا ہوا ایک کسان آپ کے پاس بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا
یا حضرت میں بہت غریب ہوں اور میرے گھر کا گزارا نہیں ہوتا میرے لئے
دعا کریں۔ حضرت بابا فرید گنج شکر نے زمین سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھایا
اور بسم اللہ پڑہ کر اُس پر پھونکا تو وہ مٹی کا ٹکڑا سونا بن گیا ۔آپ
نے کسان سے کہا کہ جائو اسے فروخت کرکے اپنا گزارا کر لو۔کسان خوشی
خوشی چلا گیا ۔اگلے ہی روز کسان کھیتوں میں آیا اور مٹی کا ٹکڑا پکڑ کر
اُس پر بسم اللہ پڑہ کر پھونکنے لگا لیکن وہ سونا بننے کی بجائے مٹی ہی
رہی ۔وہ مٹی کے ٹکڑے پکڑتا گیا ،بسم اللہ پڑہ پڑہ کر پھونکتا رہا لیکن
مٹی سونا نہ بن سکی۔وہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے پاس گیا اور کہا کہ
یا حضرت میں نے کھیتوں سے بہت سارے مٹی کے ٹکڑے پکڑ کر ان پر پھونکیں
ماری ہیں لیکن وہ سونانہیں بنے ۔حضرت بابا فرید گنج شکر نے کسان کو
فرمایا کہ تم بھی بسم اللہ ہی پڑھتے رہے ہو لیکن تمہارے پاس فرید کی
زبان نہیں ہی۔دوستو ! کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے صحافی دوستوں کے قلم
کی ہوتی جا رہی ہے ۔قلم کی طاقت ختم ہوتی جارہی ہے ،اسکے ساتھ لکھے
جانے والے الفاظ کے اثرات میں کمی واقع ہورہی ہی۔اسکی سب سے بری وجہ یہ
ہے کہ ہم حقائق کو نظر انداز کرکے اپنے قلم کوغیر ملکی ایجنسیوں کے
تابع بناتے جا رہے ہیں۔صحافی دوستو!ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا یا نہیں
اس بات پر فعل حال ہم سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور جواب کا انتظار
کرتے ہیں جبکہ اُسامہ بن لادن کو امریکہ نے پکڑ لیا اور پھر ہلاک بھی
کر دیا یہ انتہائی بحث طلب اور تحقیق طلب خبر تھی ۔ لیکن اس خبر کی
فوری اشاعت کے بعد یہاں یہ بات مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کرنی پڑھ
رہی ہے کہ پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا رحجان نہیں رہا ،صحافی خبر پر
محنت کرنے کی بجائے کسی بھی ادارے کی جانب سے جاری شدہ پریس ریلیز کو
اپنے اخبار یا ٹی وی چینل کی بڑی سُرخی بنانے کے چکر میں ایک دوسرے کو
مات دے رہے ہیں۔صحافتی ادارے ایک دوسرے کو سر کرنے کے چکر میں بغیر
تحقیق کے خبر کی اشاعتکے بعد ایک نئی بحث کو جنم دے دیتے ہیں جبکہ
دوسری جانب خبر جاری کرنے والوں کے مقاصد پورے ہونے پر وہ جشن منا رہے
ہوتے ہیں کہ دیکھو ہم نے پڑھی لکھی کمیونٹی کو کس طرح بے و قوف بنا
دیا۔ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے ،ہم قومی سلامتی کا خیال
رکھے بغیر ایک دوسرے کو مات دینے کے چکر میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔کوئی
بھی ادارہ یا شخص ہمارے صحافی کی قلم کی نوک کو اپنی مرضی سے چلانے کی
صلاحیت رکھنے لگا ہے ۔میرا اپنے ملک کے سینکڑوں صحافیوں سے ایک سوال ہے
کہ کیا ہم نے ایبٹ آباد آپریشن ہوتے دیکھا ہے اور اس سے بھی اہم سوال
یہ ہے کہ کیا اُسامہ کو امریکہ نے پاکستان سے پکڑا اور ہلاک کر دیا
ہی؟۔ہاں ! امریکہ نے کہا کہ ہم نے ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے اُسامہ
بن لادن کو پکڑا اور اسے ہلاک کرکے سمندر میں پھینک دیا ۔اگر ہم کسی
امریکی شہری سے یہ سوال کریں گے تو شائد وہ بھی اس بات کو مذاق سمجھے
اور مسکرا دے لیکن افسوس کہ ہمارے تجربہ کار صحافی امریکہ کے جاری کردہ
بیان کے بعد تحقیق کی بجائے اپنی ہی عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ
بنانے لگی۔صحافی دوستو! جب بھی کوئی جنگ لڑی جاتی ہے تو اس میں غلطیاں
بھی ہوتی ہیں اور ہار جیت بھی ،اگر ہماری فوج جیت جائے تو ہم پاک فوج
زندہ باد کے نعرے لگائیں گے اور اُس سے کوئی تکنیکی غلطی ہو جائے تو ہم
بجائے اسکے کہ اُن میں مزید لڑنے کا جذبہ پیدا کریں ہماری کوشش ہوتی ہے
کہ اُس غلطی کو بنیاد بنا کر خوب لتاڑا جائی۔ہم سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے
کی بجائے عسکری قیادت پر چڑھائی کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اُس سے
پاکستان کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں اور وہ ہمارے ملک کو نقصان
پہنچانے کے چکر میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ ہماری
قلم میں طاقت ختم ہوتی جارہی ہے اور ہماری قلم سے لکھے گئے الفاظ کی
قدر ختم ہوتی جارہی ہی۔پاکستان کی علاقائی صحافت بھی کچھ ایسی ہی ڈگر
پر چل رہی ہے ،علاقہ میں کوئی قتل یا حادثہ ہو جاتا ہے تو رپورٹر صاحب
اُس واردات یا واقعہ کی تحقیقات کرنے کی بجائے پولیس کی جاری کردہ ایف
آئی آر کی کاپی کرکے خبر کی شکل میں اخبار یا ٹی وی چینل کی زینت بنا
دیتا ہے ۔علاقائی صحافت میں بہت سارے اَن پڑہ اور جرائم پیشہ افراد نے
قبضہ جما لیا ہے جسکی وجہ سے علاقائی صحافت میں تحقیقاتی صحافت کا
رحجان ختم ہوتا جارہا ہی۔یہاں میںپاکستان کے اخبارات اور ٹی وی چینلز
کے مالکان سے گزارش کروں گا کہ ہمارا ملک اب مزید تجربات کا متحمل نہیں
ہے لہٰذا مہربانی فرماتے ہوئے اداروں کو گندی مچھلیوں اور ان پڑہ لوگوں
سے پاک کرکے تحقیقاتی اور مثبت صحافت کو فروغ دیا جائے تاکہ اس شعبہ
میں قابض جرائم پیشہ لوگ پاکستان اور اسکی سلامتی سے کھیلنے کا سوچ بھی
نہ سکیں۔حکومتِ وقت کو بھی چاہئے ملکی سلامتی کے پیشِ نظر آرڈیننس کے
ذریعہ کوئی ایسا قانون نافذ کرے جس سے ان پڑہ اور جرائم پیشہ صحافیوں
کا محاسبہ ہوسکی۔
|
 |
 |
 |
 |