اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔06-09-2010

فیس بک ،”سوشل “نیٹ ورک یا ”جاسوسی “نیٹ ورک
 
تحریر: نجیم شاہ

مشہور جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر ایک نہایت ذہین، شاطر، عیار، ظالم اور اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا۔اُس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے۔ ہٹلر کو ایک کروڑ دس لاکھ افراد کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جن میں 60لاکھ یہودی بھی شامل ہیں۔ یہودی آج بھی ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے اس عظیم قتل عام کو ”ہولوکاسٹ“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہودیوں کے قتل عام کے وقت ہٹلر نے دنیا کو ایک پیغام دیا تھا کہ ”یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو اُس نے ختم کر دیا ہے اور جو تھوڑے بہت بچ گئے ہیں اُن کی آپ نسل کشی کریں ورنہ یہ آپ کا جینا حرام کر دینگے“۔ آج ایڈولف ہٹلر کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے ۔ دنیا ان بچے کھچے یہودیوں کو ختم نہ کر سکی اور یہی یہودی آج امریکہ سمیت دنیا کی سیاست ، سفارت، تجارت ، معیشت اور میڈیا پر قابض ہیں۔امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں موجود ان یہودیوں نے امریکہ کی آشیرباد سے ایک الگ ریاست کیلئے جدوجہد شروع کر دی اور آج دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز یہودی ریاست ”اسرائیل“ موجود ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ اسرائیل کی پہنچ آج کل دنیا کے تمام بڑے اداروں تک ہے ۔امریکہ و یورپ کی معیشت، سیاست، تجارت سمیت میڈیا تک بھی اُس کی پہنچ ہے۔ انٹرنیٹ میڈیا کو بھی اسرائیل اور امریکہ پوری دنیا میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہی میں سوشل نیٹ ورک فیس بُک بھی شامل ہے جس کے ذریعے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“ نے جاسوسی کا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ فیس بُک کا بانی نوجوان دنیا کا ارب پتی یہودی ہے۔ انٹرنیٹ پر فیس بُک ایک ایسی سہولت ہے جس کے ذریعے آپ اپنے دوستوں، عزیزوں، چاہنے والوں اور غیر چاہنے والوں سے بھی رابطہ میں رہ سکتے ہیں۔بظاہر فیس بُک ہر ایک کیلئے فری ہے اور یہاں آپ اپنا اکاﺅنٹ بنا کر سماجی روابط کو فروغ دے سکتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس کے ذریعے صیہونی جاسوسی کے ساتھ ساتھ ہزاروں ڈالر روزانہ کما رہے ہوتے ہیں۔
فیس بُک استعمال کنندگان کی تعداد 50کروڑ سے زائد ہو گئی ہے۔یہ دعویٰ حال ہی میں فیس بُک کی طرف سے کیا گیا ہے کہ اُس کے صارفین کی تعداد پچاس کروڑ تک پہنچ گئی ہے ۔اس طرح دنیا میں صرف تین ہی ممالک چین ، بھارت اور روس ایسے ہیں جن کی آبادی فیس بُک کے صارفین سے زیادہ ہے۔گوگل اور یاہو کے بعد دنیا کی مقبول ترین سائٹوں میں فیس بُک تیسرے نمبر پر آ گئی ہے۔فیس بُک کے 50کروڑ صارفین میںتقریبا ًدو کروڑ عرب جبکہ25لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ پاکستانی شامل ہیں ۔ باقی مسلم ممالک کوبھی اگر شامل کر دیا جائے تو کُل ملا کر23سے 24کروڑ مسلمان فیس بُک استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح فیس بُک کے پچاس کروڑ صارفین میں تقریباً آدھے مسلمان ہیں۔
اپنی مقبولیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فیس بُک اربوں ڈالر کے اشتہارات بُک کرتی ہے۔ یہ اشتہاری کمپنیاں فیس بُک کو سائٹ کا وزٹ کرنے والوں کے حساب سے ادائیگی کرتی ہیں ۔ جس طرح ایک اخبار کی سرکولیشن کے حساب سے اشتہارات ملتے ہیں اسی طرح ایسی سائٹس کو وزٹ کرنے والوں کے حساب سے اشتہارات ملتے رہتے ہیں۔مالکان اپنی سائٹس پر صارفین کی ٹریفک بڑھانے کے لئے مختلف قسم کی سہولیات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔آپ کا آئی پی ایڈریس ہی وہ شناخت ہوتی ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ سائٹ کا وزٹ کرنے والا کہاں سے تعلق رکھتا ہے۔بظاہر یہ سوشل نیٹ ورک ہر ایک کے لئے فری ہے لیکن کسی ایک اشتہار پر بھی کلک کریں تو فیس بُک انتظامیہ کو ادائیگی ہو جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستانیوں کے توسط سے فیس بُک کو روزانہ 60لاکھ ڈالر سے زائد کا ریویو حاصل ہو رہا ہے جبکہ باقی مسلمان ممالک اس کے علاوہ ہیں۔
فیس بُک کے بارے میں کئی چشم کُشا انکشافات سامنے آ چکے ہیں کہ اسرائیل اور اُس کی خفیہ ایجنسی ”موساد“ اس ویب سائٹ کو مخالفین کے بارے میں معلومات کے حصول اور لوگوں کے ذہنوں تک رسائی کیلئے استعمال کرتی ہے۔ فرانس سے شائع ہونے والے یہودی روزنامے ”لوماگازین دویسرائیل“ نے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ”موساد“ زیادہ تر عرب ممالک اور دوسرے اسرائیل دشمن مسلم ممالک کے صارفین پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے اور فیس بُک کو اُن کی سرگرمیوں اور سوچ و فکر کے تجزیئے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اخبار بعض مستند دستاویزات کی روشنی میں فیس بک ویب سائٹ کے پس پردہ حقائق سے پردہ اُٹھا کر نئے حقائق کا انکشاف کیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی موساد اور امریکی سی آئی آے نے ” ٹارگٹ ممالک “ میں جاسوسی کرنے اور کرانے کی غرض سے فیس بُک کی بنیاد رکھی۔ دونوں ممالک اسرائیلی جاسوسوں کی بنیاد پر عام صارفین سے جاسوسی کرواتے ہیں جو اس کام کے خطرات سے ناواقف ہیں۔اخبار کا دعویٰ ہے کہ ہمیں اسرائیل کے ہاتھوں فیس بُک کے ذریعے حاصل کی جانے والی بعض اہم معلومات ”نہایت مطلع اور آگاہ“ افراد سے حاصل ہوئی ہیں۔لوماگازین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسرائیلی ریاست فیس بُک کے ذریعے عرب اور دوسرے اسلامی ممالک میں موجود صارفین کے ذاتی کوائف و اطلاعات فیس بُک کے ذریعے حاصل کر لیتی ہے اور پھر یہ معلومات موساد، شین بیتھ اور دیگر ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والے علم النفس کے ماہرین کے سپرد کی جاتی ہیں۔اسی طرح فرانس کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسرجیرارڈ نیروکس نے بھی بتایا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اسرائیل کی خفیہ سرگرمیوں کا انکشاف مئی 2001ءمیں ہو گیا تھا۔ ”انٹرنیٹ کے خطرات“ نامی کتاب کے مصنف نیروکس کا کہنا ہے کہ ”فیس بُک اسرائیلی نفسیات دانوں پر مشتمل ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے جو عرب دنیا اور خاص طور پر فلسطینی اسرائیلی تنازعے سے متعلق ممالک پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔“انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فیس بُک کے ذریعے مردوں کی جاسوسی کےلئے خواتین کو بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اپریل 2008ءمیں اردن کے ایک روزنامہ الحقیقہ الدولیہ میں ”پوشیدہ دشمن“ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ فیس بُک اور اس طرح کی دوسری ویب سائٹس پر صارفین کی معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور پھر اُنہیں جاسوسی کے لئے ہدف بنایا جاتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک رحجان ہے کہ لوگ خاص طور پر نوجوان کسی دوسرے کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے فیس بُک یا اس طرح کی دوسری سوشل نیٹ ورک سائٹس پر اپنی ذاتی معلومات کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عناصر باآسانی ہدف بن جاتے ہیں جو اس طرح کے لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ انٹرنیٹ اور فیس بُک جیسے سوشل نیٹ ورک کو جدید معلومات، تعلقاتِ عامہ، جاسوسی ، فوجیوں اور اُن کے خاندانوں کے درمیان رابطوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ فیس بُک اسرائیل کی خدمت میں مصروف دیگر عالمی ایجنسیوں کی بھی خدمت کرتا ہے۔
عالمی سیاست میں بھی فیس بُک کا نام کوئی اجنبی نہیں ہے۔ سماجی روابط کی اس ویب سائٹ کو مختلف ممالک کے حکمران، اپوزیشن گروپس اور مختلف پارٹیوں کے لیڈرز اپنی مہم کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما، سابق صدر بش سمیت مختلف ممالک کے حکمرانوں، اپوزیشن گروپس اور سیاسی لیڈروں کے فیس بُک پر اکاﺅنٹس موجود ہیں۔ پاکستانی حکمران، اپوزیشن گروپس، سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ بھی فیس بُک کو اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے مداحوں میں اضافے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اس وقت بھی فیس بُک پر سابق صدر پرویز مشرف انتہائی مقبول ترین پاکستانی شخصیت ہیں اور اُن کے مداحوں کی تعداد تقریباً تین لاکھ کے قریب ہے جبکہ صدر زرداری، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یارولی، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، عوامی مسلم لیگ کے سربرہ شیخ رشید احمد،مسلم لیگ قائداعظم کے چوہدری شجاعت حسین /چوہدری پرویز الٰہی ، حکومتی وزیروں اور مختلف پارٹیوں کی اہم شخصیات فیس بُک کے ذریعے اپنے مداحوں سے رابطے میں ہیں۔ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل (ر) حمید گل اور دوسری بہت سی اہم شخصیات بھی اپنے نظریات کے فروغ، مداحوں سے رابطہ اور اپنی مہم کو آگے بڑھانے کیلئے فیس بک کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔فرانس کے یہودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیس بُک سے صیہونی ریاست کے دشمن ممالک میں ہونے والے سیاسی واقعات کے بارے میں صیہونی انٹیلی جنس کو مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں صیہونی دوسروں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کی بنیادی خواہش اور اصل ہدف یہ ہے کہ اسلام کو ایک دہشت گرد اور متشدد دین بنا کر پیش کریں۔ وہ قرآن مجید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات گرمی اور اسلامی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثر اُبھرے کہ دین اسلام ایک خونخوار مذہب ہے۔اسلام کے خلاف صیہونی ذرائع ابلاغ کی پروپیگنڈہ مہم کی اصل وجوہات بھی یہی ہیں کہ اس وقت امریکہ و یورپ میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جو زوروشور سے پھیل رہا ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں صیہونی ذرائع ابلاغ نے فیس بُک جیسے مقبول سوشل نیٹ ورک کو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ 20مئی 2010ءکو فیس بُک پر توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ کروایا گیا جو پورے عالم اسلام کیلئے سیاہ دن تھا۔ فیس بُک کے اس اعلان کے بعد پاکستان اور عالم اسلام میں فیس بُک کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے فیس بُک کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس پر عارضی پابندی لگا دی تھی لیکن چند دن بعد ہی فیس بُک پر سے یہ پابندی پھر اُٹھالی گئی ۔آج ایک بار پھر فیس بُک نے مسلمان کے جذبات کو اُبھارنے کے لئے 11ستمبر 2010ءکو ”قرآن جلانے کا دن“ منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ گیارہ ستمبر امریکہ کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کیونکہ اس دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا حادثہ پیش آیا تھا جس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرادیا گیا تھا جبکہ گیارہ ستمبر کے ہی دن دنیا بھر کے مسلمان عید کا تہوار بھی منا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات کو اُبھارنے اور عید کی خوشیوں کو غم میں بدلنے کیلئے صیہونی میڈیا ایک بارپھر حرکت میں آ گیا ہے ۔اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ فیس بُک کو مسلمان کو ایذا پہنچانے اور نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ممالک میں فیس بُک کی جاسوسی بارے سنسنی خیز رپورٹس سامنے آنے کے باوجود آج بھی یہ سائٹ نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے بہت سے مسلم ممالک میں ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہے۔گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے وقت بھی پاکستان سمیت دوسرے مسلم ممالک میں فیس بُک کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا جبکہ اب بھی ہر طرف احتجاج اور فیس بُک کے مکمل بائیکاٹ کا پیغام دیا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں اور ذمہ داران کو شاید اِس کا ادراک نہیں ہے۔پاکستان میں جب فیس بُک بند ہوئی اُسے چند دنوں میں ہی کروڑوں ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑاتھا۔ امریکہ کو اپنی کمپنی کو ہونیوالے اتنے بڑے نقصان سے فوراً مذاکرات یاد آ گئے تھے اور پاکستانیوں کو فیس بُک انتظامیہ سے مذاکرات سے مشورے دیئے جانے لگے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک فیس بُک پر مکمل پابندی عائد کر دیں۔ اگر فیس بُک کے صرف مسلمان صارفین ہی اس سائٹ کا مکمل بائیکاٹ کر دیں تو اسے روزانہ 51کروڑ 70لاکھ ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر فیس بُک پر مکمل پابندی کے احکامات جاری کر دے اور پی ٹی اے کی طرف سے فیس بُک اور دوسری قابل اعتراض مواد رکھنے والی سائٹس کی پاکستان میں آنے والی ٹریفک پر ایک فلٹر لگا دیا جائے تو یہ نہ صرف پوری قوم بلکہ اُمت مسلمہ پر بھی عظیم احسان ہوگا۔ اس طرح ہمارا نوجوان صیہونیوں اور اُن کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچ جائے گا اور یقینا اس میں ملک کا مفاد بھی پنہاں ہے۔ پاکستان، اس کی مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیوں سے محبت کرنے والا کوئی بھی پاکستانی یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ آئے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے اور پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں ۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved