اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

  اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 

ملا نصير الدين

ساري دنيا انہيں پير سمجھتي ہے مگر وہ خود کو جوان سمجھتے ہيں، ديکھنے ميں سياست دان نہيں لگتے اور بولنے ميں پير نہيں لگتے، قدر اتنا ہي بڑا جتنے لمبےہاتھ رکھتے ہيں، چلتے ہوئے پائوں يوں احتياط سے زمين پر رکھتے ہيں کہيں بے احتياطي سے مريدوں کي آنکھيں نيچے نہ آجائيں،اتنا خود نہيں چلتے جتنا دماغ چلاتے ہيں، دور سے يہي پتہ چلتا ہے کہ چل رہے ہيں، يہ کسي کوپتہ نہيں ہوتا آرہے ہيں جارہے ہيں، سياست ميں انکا وہي مقام ہے کو اردو ميں علامتي افسانے کا، خاندان کے پہلے صبغتہ اللہ اول کے سر پر پگ باندھي گئي اور وہ پہلے پاگارہ پير کہلائے، يہ بھي اس خاندان کے چشم و چراغ ہيں جس کي چشم بھي چراغ ہے، بچپن ہي سے پردے کے اس قدر حق ميں تھے کہ 1944 ميں جب کراچي ريلوے اسٹيشن سے انگلينڈ روانہ ہوئے تو تو پردے کي وجہ سے پتہ ہي نہيں چل رہا تھا کہ جارہے ہيں يا جارہي ہے، 1952 ميں يوں پاکستان کو واپس آئے، جيسے پاکستان کو واپس لائے ہوں، کسي نے کہا انگلينڈ وہ جگہ ہے جہاں سب سے زيادہ دھند ہوتي ہے، کہا انتي دھند تھي کہ جگہ نظر نہ آئي۔
پہلے کالعدم مسلم ليگ کے صدر بنے، پھر مسلم ليگ کے کالعدم صدر بنے، پھر مسلم ليگ بن گئے، اس لئيے اب دوڑ وہ رہے ہيں ہوتے ہيں اور سانس مسلم ليگ کي پھولنے لگتي ہے،وہ بڑے پائے کے سياست دان ہيں، جس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹ پائے کے سياست دان ہوتے ہيں نہيں، حالانکہ چھوٹے پائے مہنگے ہوتے ہيں، وہ پاکستاني سياست کي اقوام متحدہ ہيں اور اقوام متحدہ وہ جگہ ہے جہاں دو چھوٹے ملکوں کا مسئلہ ہوتو مسئلہ غائب ہوجاتا ہے، چھوٹی اور بڑي قوم کا مسئلہ ہوتو چھوٹي قوم غائب ہوجاتي ہے اور اگر بڑي قوموں کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ غائب ہوجاتي ہے۔خود کو جي ايچ کيو ميں کھڑا کرتے ہيں، جي ايچ کيو سے مراد جي حضوري کرن الگتا ہے، مسلم ليگ کے خادم نہيں خاوند ہيں اور مسلم ليگ ان کي بيوہ ہے، ان کے بيان پڑھ کر لگتا ہے، جيسے انکا تعلق محکمہ بندي سے ہے، شايد وہ اس لئيے بار بار منصوبہ بندي زور ديتے ہيں کہ ابھي سات ماہ بھي نہيں ہوتے اور نئي مسلم ليگ کي ولادت ہوجاتي ہے۔
دوران گفتگو جہاں پتہ چلے کہ دوسرا ان کي بات سمجھ رہا ہے، فورا بات بدل ديتےہيں آدھا دن وہ کہتے ہيں جو سننا چاہتے ہيں اور باقي آدھا دن وہ سنتے ہيں جو کہنا چاہتے ہيں، فقرہ يوں ادا کرتے ہيں جيسے بل ادا کرتے ہيں، جس موضوع پر دودرے ہائے ہائے کر رہے ہوتے ہيں، يہ ہائے کہہ کر گزجاتے ہيں، کسي کي بات کي پروہ نہيں کرتے ہيں، مگر چاہتے ہيں ان کي بات کي پروا کي جائے،لوگ ان کو ملنے سے پہلے وضو کرتے ہيں، وضو تو دوسرے سياست دانوں سے ملنے والوں کو بھي کرنا پڑتا ہے، مگر ملنے کے بعد،جانوروں کي حرکتوں سے بہت محفوظ ہوتے ہيں، اس لئيےکسي کي حرکت سے محفوظ ہوں تو بندہ پريشان ہوجاتا ہے کہ پتہ نہيں مجھے کيا سمجھ رہے ہيں، ان کے پاس کئي گھوڑے ہيں جو اکثر ريس اور اليکشن جيتتے رہتے ہيں، اپني تعريف سن کو خوش نہيں ہوتے، آخر بندہ چوبيس گھنٹے ايک ہي بات سن کر خوش تو نہيں ہوسکتا ہے۔
مريد اپني نگاہيں، ان کے پائوں سے اوپر نہيں لے جاتے ہيں، اس لئيے اگر کوئي مريد کہے کہ ميں نے پير سائيں کو ننگے ديکھا تو مطلب ہوگا، ننگے پائوں ديکھا پير صاحب منفردبات کرتےہيں، اگر کوئي کہے کہ پير صاحب آپ نے ايک جو تاااتارا ہوا ہے تو کہيں گے نہيں ہم نے ايک جوتا پہنا ہوا ہے، ان کي تو چائے ميں چيني کم ہو تو کہيں گے، اس چيني ميں چائے زيادہ ہے، وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ ديں وہ سر پر ہاتھ رکھ ليتا ہے، جب وہ پير جو گوٹھ سے لاہور آتے ہيں تو پير جو گوٹھ بھي لاہور آجاتا ہے، ان دنوں لاہور کہا جاتا ہے؟ اسکا پکا پتہ نہي، مريد انہيں اپنے ہاتھ سے کام نہيں کرنے ديتے، اس لئيے پير صاحب کے ہر کام ميں کسي اور کا ہاتھ ہوتا ہے۔ان سے حور کامذ کر پوچھو تو شايد حرکہيں، جي ايم سيد کے بقول صاحب جھوٹ نہيں بولتے، گويا وہ پير صاحب کو سياست دان نہيں مانتے، ويسے ہر پير صاحب کے اليکشن کے نتائج سے ہميشہ يہ لگتا ہے کہ ٹران کا انتخاب نہيں کرتے، يہ ووٹروں کا انتخاب کرتے ہيں، يہ وہ پير ہيں جو دن ميں اتني بار ماشااللہ نہيں کہتے جتني بار مارشل لاء کہتے ہيں، برتھ ڈے ضرور مناتے ہيں، دوسرے سياست دان شايد اس لئيے نہيں مناتے کہ برتھ ڈےتو ڈےکو پيدا ہونے والے ہي مناسکتے ہيں۔
ان کي باتوں ميں اتنا وزن ہوتا ہے کہ سننے والا اپنا سر بھاري محسوس کرنے لگتا ہے ان کا ہر فقرہ کئي کئي کلوکا ہوتا ہے، فقرے تو دوسرے سياست دانوں کے بھي کئي کئي کلو کے ہوتے ہيں، جي ہاں کئ کئي کلو ميٹر کے، دسروں کے تو بيانوں کي بھي اتنے کام سرخي نہيں لگتي جتنے کالمي سرخی ان کي خاموشي کي ہوتي ہے، ستاروں کے علم پر ايسا عبور ہے کہ فلمي ستاروں کي گردش تک پس و پيش کرتے رہتے ہيں۔
بہت اچھے کرکٹر ہيں، بحثيت امپائر کئي بار سنچرياں بنائيں، فوٹو گرافي کا شوق ہے کہتے ہيں ميں ہميشہ خوبصورت تصوريں بناتا ہوں، حالانکہ وہ خوبصورت کي تصويريں بناتے ہيں، مخالفين تک پير صاحب اس قدر احترام کرتے ہيں، کہ ان کے سياسي حريف پرويز علي شاہ يہ نہيں کہتے ميں نہ متعد بار پير صاحب کو ہرايا، يہي کہتے ہيں، پير صاحب نے مجھے ہر بار جتوايا، صحافي بھي ان کے ان سے سوال کررہے ہوں تو انہيں يوں ديکھتے ہيں جيسے پير سوالي کو۔
پير صاحب کو فرشتے پہت پسند تھے، فرشتوں ميں يہي خوبي ہے کہ وہ سوچتے سمجھتے نہيں، بس جو کہ جائے، کرتے ہيں، پير صاحب کو زميني فرشتے اليکشن ہرواتے ہيں، زمين اور آسماني فرشتوں ميں وہي فرق ہے جو زميني اور آسماني بجلي ميں ہے، آسماني بجلي وہ ہوتي ہے جس کا بل نہيں آتا، پير صاحب اس وقت کے تعليم يافتہ ہيں جب ايک ميڑک پڑھا لکھا آج کے دس ميڑکو کے برابر ہوتا ہے، يہي نہيں اس زمانے کا تو ايک ان پڑھ آج کے دس ان پڑھوں سے زيادہ ان پڑھ ھوتا تھا۔
پير صاحب کسي سياست دان کو سنجيدگي سے نہيں ليتے، جس ک سنجيدگي سے ليں وہ مذاق بن جاتا ہے، وہ اتنے شگفتہ مزاج ہيں کہ ان کے کمرے کے گلدان ميں پلاسٹک کے پوودوں پر بھي پھول کھلنے لگتے ہيں، جب ان کے مريد اور کالعدم وزيراعظم ممد خان جونيجو ايسے تھے کہ ان کے کمرے ميں تو پلاسٹک کے پھول بھي مر جھا جاتے پير صاحب کي چھٹي حس جانے والے حکمرانوں کا باتاتي ہے، جب کے باقي پانچ حسيں آنے والے کا، وہ کہتے ہيں حکمرانوں کاآئين کي نہيں، آئينے کي ضرورت ہے، ٹھيک کہتے ہيں، خظاب اور زيڈال بندہ آئين کي مدد سےتو نہيں لگاسکتا، ان کي طبعيت ميں اتني مستقل مزاجي نہيں جتني مستقل مزاجي ہے، سنجيدہ بات کو غير سنجيدہ طريقے سے کہنا مزاح نہيں بلکہ غير سنجيدہ بات کو سنجيدہ طريقے سے کہنا مزاح ہے، سوچتا ہوں اگر سياست ميں سجيدگي آگئي تو پير صاحب کيا کريں گے؟

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team