اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-06-2010

کپاس کا پھول
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
مائی تاجو ہر رات ایک دو گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔ پو پھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آگیا اور وہ گِر پڑی۔ گِرتے ہوئے اس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئی تھی۔

یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہوگئی تو گِر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔ یہ وہی سریلی اذان تھی۔

جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہ کر پورے گاں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سن لیں تو واہگرو کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز میں گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی متھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہو رہے تھے۔

مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ مائی تاجو کو تو جیسے بیہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اٹھتے ہو بیہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بیہوش پڑی تھی اور چند چونٹیاں بھی اسے مردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئیں تھیں اور اس کی جھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا مائی آج لسی نہیں لو گی کیا؟ پھر اس کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے۔

مائی کے چہرے پر پانی کے چھٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔ حکیم منور علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔ اس دن سے راحتاں کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی وہیں بیٹھی مائی کی باتیں سنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا۔ میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اوپر سے بلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔

تب تم آنا اور ادھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں میرا کفن نکال لینا۔ کبھی دِکھاں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت بھی لکھوا لیا ہے۔ ڈرتی ہوں کہ بار بار نکالوں گی تو کہیں خاکِ پاک جھڑ نا جائے۔ بس یوں سمجھ لو کے یہ وہ لٹھا ہے جس سے بعض شہزادیاں برقعہ سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے یہ کپڑا۔

ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھا نا؟ میں ڈرتی تھی کے کہیں کھدر کا کفن پہن کر جاں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی نا پسوانے لگیں۔ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکرا کر اس نے پوچھا تھا۔ تمھیں دیکھاں۔

نا مائی۔ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا۔ خاکِ پاک جھڑ گئی تو؟۔ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی ابھی تو تم بیس سال کی اور جیوگی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں پانچ پیسیاں ہو!۔ مائی کا ہاتھ فورا اپنے ماتھے کی طرف اٹھ گیا۔ ہائے پانچ کہاں ہیں۔ کل چار ہیں پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ توچھری کی نوک سے ذرا دونوں کو ملاوے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسی تھوڑی سی اور پی لوں۔ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کے آس پاس پھیلی ہوئی کفن اور کافور کی بو سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔ ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے انس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب مذاق میں ایک بار راحتاں نے مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اسے نئی زندگی مل گئی ہے۔

راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتی کتنی آباد اور بعض کتنی ویران ہوتے ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گِر کر مر گیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا ! کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتح خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے اور پھر انہی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونئے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا۔

تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مر کر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کے دفن کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved