صفدر مارتھا کے فلیٹ والی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر تھا دن ختم ہوچکا
تھا تاریکی پھیل رہی تھی سڑکیں جگمگا اُٹھی تھیں ۔
مارتھا تقریباً سات بجے فلیٹ سے برآمد ہوئی وہ نیلے اسکرٹ میں تھی اور
کافی دلکش نظر آرہی تھی۔
حسبِ دستور تعاقب شروع ہوگیا ۔صفدر اس تعاقب سے کچھ اکتا سا گیا
تھا۔کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی بات ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی جس کی بناء
پر وہ اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ کرسکتا۔بس ہوٹلوں کے پھیرے ہوتے
رہتے اور وہ محسوس کرتا کہ مارتھا صادق کے گِرد اپنا جال مضبوط کر رہی
ہے۔صرف اسی اتنی سی بات کی بناء پر وہ کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا
تھا۔ہوسکتا تھا کہ وہ مارتھا محض ایک پیشہ ور لڑکی ہی ثابت ہوتی۔ایکس
ٹو کا یہ خیال غلط ہوتا کہ وہ بھی اس قسم کی لڑکی ہے جیسی ہلدا
تھی۔گرینڈ میں داخل ہوتے وقت صفدر نے بہت برا سا منہ بنایا کیونکہ کئی
دنوں کی ہوٹل گردی سے وہ تنگ آگیا تھا اور یہ تفریح گاہیں اسے بے حد
بورنگ معلوم ہونے لگی تھیں۔
یہاں مارتھا کا نیا شکار صادق موجود تھا۔
اُف فوہ ! میں کتنی خوش ہوئی ہوں تمہیں دیکھ کر !“ مارتھا اس کی میز کے
قریب پہنچتی ہوئی بولی ۔ڈر رہی تھی کہ کہیں تمہارا انتظار نہ کرنا پڑے
۔
ڈرنے کی کیا بات تھی۔صادق بے ڈھنگے انداز میں جھکا ! بیٹھو بیٹھو !“
صفدر نے سوچا کہ وہ عورتوں کے معاملے میں بلکل ہی ڈیوٹ معلوم ہوتا ہے !
وہ بالکل ایسے انداز میں بانچھیں پھاڑے ہوئے تھا جیسے کسی پجاری کو
بھگوان نے درشن دے دیئے ہوں اور اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ وہ آرتی
اتارے یا قدموں پر سر رکھ دے۔
تم کیا جانو ، وہ ٹھنڈی سانس لے کر مغموم لہجے میں بولی !“ تم نہیں
سمجھ سکتے کہ میں تم سے کتنی محبت کرنے لگی ہوں۔