|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خطرناک لاشیں
باب
سترہ |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
کیپٹن
فیاض نے ایک طویل سسکاری لی اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا ۔اسے چار
آدمیوں نے جکڑ رکھا تھا اور پانچواں اس کے انٹراوینس انجکشن دے رہا تھا
۔۔۔ داڑھی والے انگریز کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی
۔
وہ قریب ہی کھڑا تھا۔
تمہاری صحت بہت گِر گئی ہے کیپٹن ! اس لیئے مجبور ہوں ، میں نہیں چاہتا
کہ دبلے ہوکر یہاں سے واپس جاؤ ۔
فیاض کچھ نہ بولا ۔۔۔۔ جیسے ہی سرنج کی سوئی باہر آئی وہ لوگ اسے چھوڑ
کر ہٹ گئے ، لیکن وہ بے حس و حرکت کرسی پر پڑا رہا ۔۔۔ وہ سچ مچ کافی
نقاہت زدہ نظر آنے لگا تھا۔آنکھوں کے گِرد سیاہ حلقے نمایاں ہو گئے تھے
اور شیو بڑھا ہوا تھا۔
انجکشن کے بعد جب وہ لوگ اسے چھوڑ کر ہٹ گئے تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ
اب ان سے ٹکرا ہی جائے حشر جو کچھ بھی ہو ۔۔۔۔وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ،
لیکن دوسرے ہی لمحہ میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے پیروں پر کھڑا
بھی نہ ہوسکے گا ، سارا جسم سنسناتا رہا اور پیروں میں تو بالکل ہی قوت
نہیں رہ گئی تھی۔ویسے حواس خمسہ پر یہ کیفیت اثر انداز نہیں ہوئی تھی،
وہ سوچ سکتا تھا ، اسے غصّہ بھی آسکتا تھا ۔۔۔۔ وہ قہقہے بھی لگا سکتا
تھا ۔۔۔۔۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ
محسوس کرنے لگا تھا البتہ پہلے اس نے داڑھی والے انگریز کو برا بھلا
کہا تھا اور اسے چیلنج کیا تھا لیکن اب اس میں اتنی ہمت نہیں رہ گئی
تھی کہ وہ اس سے آنکھیں ملا سکتا ۔ تم اس وقت بالکل شیر کے بچّے معلوم
ہو رہے ہو، انگریز نے قہقہہ لگایا۔
میرا مذاق مت اڑاؤ ۔۔۔۔۔ تمہیں اس کے لیئے پچھتانا پڑے گا۔فیاض نے بدقت
کہا۔
اٹھاؤ ۔۔۔ اسے ، انگریز غرّایا ۔ فیاض نے خود اٹھنے کی کوشش کی لیکن
ناکام رہا۔
چار آدمیوں نے اسے اٹھایا اور پھر ایک آدمی نے اس کی بغلوں میں ہاتھ
دیئے ، وہ اسے وہاں سے لے جا رہے تھے۔فیاض کی روح لرز گئی یہ تو وہی
کمرہ تھا جہاں اس نے پچھلی رات اندھی لڑکی کا خوفناک رقص دیکھا تھا۔
اس نے اس صوفے کی طرف دیکھا جس پر پچھلی رات اس نے شاہد کی چیخیں سنی
تھیں ، صوفے پر اس وقت بھی وہ رسّی نظر آئی جس سے شاہد کو باندھا گیا
تھا۔اندھی لڑکی بھی اس کمرے میں موجود تھی، فیاض کو وہ کمرہ گھومتا ہوا
محسوس ہونے لگا ۔۔۔ اس کا سر چکرا گیا تھا۔
اس سے پہلے وہ کبھی اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ جتنا اس وقت ہوگیا تھا۔
صوفے پر گِرا کے باندھ دو۔ انگریز نے غرّا کر کہا۔
نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ فیاض چیخا ، تم مجھے نہیں مار سکتے ، ہرگز نہیں
مار سکتے ۔۔۔۔ نہیں ۔“
وہ چیختا ہی رہ گیا ، لیکن اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہ گئی تھی کہ
وہ ان نے اس کام میں دشواریاں ہی پیدا کر سکتا۔
اسے کسی بے بس بکری کی طرح صوفے پر گِرا دیا گیا۔
اچانک اسی وقت مارتھا اور صادق کمرے میں داخل ہوئے۔
اوہ ۔۔۔ ڈیڈی ! “ مارتھا خوفزدہ آواز میں بولی۔
یہ کون ہے تیرے ساتھ ؟؟ انگریز دہاڑا ۔ فیاض کو گِرا کر باندھنے والے
ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے۔فیاض بے حِس و حرکت پڑا ہوا آنے والوں
کو گھور رہا تھا۔
اوہ ۔۔۔۔۔ ڈیڈی ۔۔۔۔ یہ ہیں میرے دوست ۔۔۔۔ مارتھا ہکلائی ۔
خاموش رہو ۔ انگریز نے گرج کر کہا ، کتنی بار تم کو منع کیا گیا ہے۔
یہ ۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ اچھا آدمی ہے ۔
مجھے دیسی کتوں سے نفرت ہے۔
میں آدمی ہوں مسٹر ۔۔۔۔ ذرا زبان سنبھال کے ، صادق نے غصیلے لہجے میں
کہا۔
پکڑ لو ۔۔۔۔ اسے بھی ۔۔۔، انگریز نے اپنے آدمیوں کو للکارا۔صادق نے بڑی
پھرتی دکھائی لیکن اندازے کی غلطی کی بناء پر چھلانگ لگاتے وقت اس کا
پیر ایک کرسی کے پائے سے الجھ گیا۔
بس اس کا گرا تھا کہ وہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ۔ صادق چاروں طرف سے جکڑ لیا
گیا۔۔۔مارتھا ہنس رہی تھی۔
ارے تم ہنستی ہو ، صادق دانت پیس کر بولا۔
پھر کیا کروں ۔۔۔۔! تم تو کہہ رہے تھے کہ مجھے کوہ قاف پر لے جاؤ گے
۔۔۔۔ وہاں مجھ سے شادی کرو گے!"
"ارے۔۔۔ یہ کتے کا پلا تم سے شادی کی خواہش رکھتا ہے!"
"ہاں۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔ ذرا دیکھو تو۔۔۔ یہ کتے کا پلا!" مارتھا اٹھلائی۔
"بس تو پھر یہ بھی میرے غصے کا شکار ہو جائے گا۔ تم فکر مت کرو۔"
انگریز بولا۔ پھر دفعتاً اس نے بلند آواز میں کہا۔ "کیپٹن موت کا ناچ
شروع ہونے جا رہا ہے۔ اندھی لڑکی کا وار بہت کم خطا کرتا ہے۔ پچھلی رات
تو تم آخری وار کا نظارہ کرنے کے لئے رکے ہی نہیں تھے۔ ورنہ اس اندھی
آرٹسٹ کے کمال کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکتے۔ خیر آج سہی۔آج تو خود
تمہیں ہی یہ وار سہنا ہے۔ آج تم اچھی طرح داد دے سکو گے!"
"نہیں نہیں! تم ایسا نہیں کر سکتے۔" فیاض خوفزدہ سی آواز میں چیخا اور
پھر اسے اپنی بے بسی پر رونا آ گیا۔ وہ کمزور دل کا آدمی نہیں تھا۔
فوجی زندگی میں بڑے بڑے معرکے جھیلے تھے! پچھلی جنگ عظیم کے دوران میں
سینکڑوں بار موت کے منہ میں جانے سے بچا تھا! لیکن آج کا خوف۔۔۔ ایسا
خوف اسے پہلے کبھی نہیں محسوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کبھی خود کو بے بس
تصور کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔۔۔ پھر کیا تھا؟ کیا اسی انجکشن کا اثر
جو کچھ دیر پہلے اسے دیا گیا تھا۔
"میں ایسے دیسی کتوں کو معاف کرنا پسند نہیں کرتا جو میری بیٹیوں کے
چکر میں پڑیں!" انگریز کہہ رہا تھا۔ اچانک صادق نے فیاض کی طرف دیکھ کر
مارتھا سے کہا۔ "کیا یہ حضرت بھی تمہارے عاشقوں میں سے ہیں!"
"بدتمیز لڑکے خاموش رہو۔" انگریز دھاڑا۔ "تمہاری موت ہی تمہیں یہاں
لائی ہے۔"
"کیا یہ خوبصورت لڑکی موت ہے!" صادق نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا۔
"چپ رہو۔!" وہ پھر گرجا۔ "موت کا ناچ دیکھو۔ یہ اندھی لڑکی بہت اچھا
ناچتی ہے۔"
"میرے پاپا کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔" صادق بڑبڑایا۔
"مگر یہ لڑکی موت ہے! نفرت ہے!" انگریز نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "یہ ناچتے
ناچتے ٹھیک اس کے دل کے مقام پر خنجر پیوست کر دے گی! غور سے دیکھو!
اور اس اندھی لڑکی کے کمال کی داد دو! اور کل تمہارا بھی یہی حشر ہوگا!
تمہیں یہ اندھی محبت تمہارے گھر پہنچا دے گی۔"
گرامو فون پر ریکارڈ بجنے لگا اور اندھی لڑکی خنجر چمکاتی ہوئی ناچنے
لگی۔
کیپٹن فیاض اس طرح چیخنے لگا جیسے اس پر "نہیں نہیں" کا دورہ پڑ گیا ہو!
لڑکی ناچتی رہی۔۔۔ اور انگریز چیختا رہا۔۔۔ "کیپٹن فیاض۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔
فن کی قدر کرنا سیکھو۔ دہقان نہ بنو۔۔۔! اس لڑکی نے بڑی محنت سے یہ
کمال حاصل کیا ہے اس کا دل نہ توڑو۔۔۔ لڑکی اگر تیسرے وار میں خنجر اس
کے دل میں پیوست نہ ہوا تو یہی تمہارے سینے میں اتار دیا جائے گا۔ تم
مجھے اچھی طرح جانتی ہو!"
لڑکی کچھ کہے بغیر ناچتی رہی اور فیاض دیوانوں کی طرح چیختا رہا اور
پھر یک بیک خاموش ہو گیا۔
"کھچاک" کی آواز کے ساتھ خنجر اس کے سر کے قریب صوفے میں پیوست ہو گیا
تھا۔ جیسے ہی لڑکی نے دوبارہ خنجر کھینچ کر ناچنا شروع کیا وہ پھر
چیخنے لگا۔
صادق حیرت سے آنکھیں پھاڑے تماشا دیکھ رہا تھا۔ مارتھا اب وہاں موجود
نہیں تھی۔
اچانک صادق نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا! آواز اتنی بلند تھی کہ تیز
ترین موسیقی پر بھی حاوی ہو گئی۔ فیاض چیختے چیختے خاموش ہو گیا اور
انگریز بھی اسے گھورنے لگا۔ مگر اس کا قہقہہ تھا کہ طویل ہی ہوتا جا
رہا تھا۔ اتنی لمبی سانس کسی کی بھی سمجھ میں نہ آ سکی! قہقہہ کسی طرح
ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
"خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔" انگریز چیخا۔ لیکن قہقہہ نہ رکا۔۔۔ دفعتاً
ریکارڈ ختم ہو گیا اور پھر تو سناٹے میں یہ قہقہہ بہت زیادہ بھیانک
معلوم ہونے لگا! ریکارڈ دوبارہ نہیں لگایا گیا۔ اندھی لڑکی بھی رک گئی
تھی۔
"خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔" انگریز پھر دھاڑا۔۔۔ اور پھر وہ لوگ بھی اسے
جھنجھوڑ کر خاموش کرانے لگے، جو اسے پکڑے ہوئے تھے۔
دفعتاً صادق تڑپ کر ان کی گرفت سے آزاد ہو گیا! وہ لوگ دراصل اسی قہقہے
کے جال میں پھنس کر غافل ہو گئے تھے۔
صادق کی لات اس آدمی کے سینے پر پڑی، جو سب سے پہلے اس کی طرف جھپٹا
تھا۔ پھر ایسا معلوم ہونے لگا جیسے وہ ہوا میں اڑ رہا ہو۔ اس کے پیر
زمین پر لگتے ہوئے معلوم ہی نہیں ہوتے تھے۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے وہ
صرف ان کے سینوں پر پڑ رہے ہوں! اندھی لڑکی چیخ مار کر ایک جانب لڑھک
گئی۔ کیونکہ اس بار کے سپاٹے میں صادق نے اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا
تھا۔
یک بیک صادق اسی طرح اچھلتا کودتا اور انہیں لاتیں رسید کرتا ہوا بولا۔
"یہ دیکھو بیٹو۔۔۔ یہ ہے موت کا ناچ۔۔۔ اگر ہمت ہو تو مجھے ناچنے سے
روک دو۔"
فیاض بری طرح چونکا! کیونکہ اس بار صادق کی آوا ز بدلی ہوئی تھی!
ہوسکتا ہے ان لوگوں میں سے ایک آدھ کے پاس پستول یا ریوالور بھی رہے
ہوں! لیکن انہیں اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ ان کے استعمال کے متعلق سوچ
سکتے۔
"صفدر۔۔۔! بلا ضرورت دخل نہ دینا!" صادق نے چیخ کر کہا اور کیپٹن فیاض
حلق پھاڑ کر چیخا "عمران"
"میں انہیں موت کا اصل ناچ دکھا رہا ہوں سوپر فیاض!" عمران نے اسی طرح
اچھل اچھل کر لاتیں چلاتے ہوئے کہا۔
"اوہ۔۔۔ پکڑو اسے!" یک بیک انگریز دھاڑا۔ پھر عمران نے اس کی جیب سے
ریوالور بھی برآمد ہوتے دیکھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کی لات اس کے
منہ پر پڑی اور وہ کراہ کر ڈھیر ہو گیا۔ ریوالور اچھل کر دور جا پڑا
جسے ایک آدمی نے اٹھانے کی کوشش کی۔ مگر عمران بجلی کی سی سرعت سے اس
پر جا پڑا۔ اس بار اس کا خنجر والا ہاتھ بھی چلا تھا۔ اس آدمی نے چیخ
مار کر زمین پکڑ لی۔
"ڈاکٹر گلبرٹ!" عمران اسی طرح اچھلتا ہوا بولا۔ "تم میرے کمال کی داد
نہیں دے رہے! دہقان نہ بنو بلکہ فن کی قدر کرنا سیکھو! ورنہ میں اسی
طرح ناچتے ناچتے یہیں فنا ہو جاؤں گا۔"
ایک بار عمران چوک ہی گیا اور اس کی ٹانگ ڈاکٹر گلبرٹ کے ہاتھ میں آ
گئی۔ وہ فرش پر ڈھی ہو گیا اور ڈاکٹر گلبرٹ سمیت پانچ آدمی اس پر ٹوٹ
پڑے۔
"مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو۔۔۔!" گلبرٹ غرا رہا تھا۔
"عمران میں بالکل بے بس ہوں۔۔۔ مفلوج کر دیا گیا ہوں!" کیپٹن فیاض نے
پوری قوت سے چیخ کر کہا۔
"پروا نہ کرو!" عمران کا جواب تھا۔
وہ لوگ حقیقتاً نروس ہو گئے تھے اس لئے عمران پر گرتے وقت نہیں خیال
نہیں رہ گیا تھا ابھی عمران کے داہنے ہاتھ میں خنجر موجود ہے! وہ تو
انہیں اس وقت ہوش آیا جب ان کا ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے پیٹ دبائے
ہوئے بھینسوں کی طرح ڈکرا کر بائیں جانب لڑھک گیا۔ ان کی بوکھلاہٹ کی
معراج تو یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھی کا حشر دیکھ کر عمران سے خنجر چھیننے
کی بجائے اسے چھوڑ کر ہٹ گئے! اور اس کی پہل ڈاکٹر گلبرٹ ہی سے ہوئی
تھی! وہ ویسے بھی لڑائی بھڑائی والا آدمی معلوم نہیں ہوتا تھا۔
اس بار ان کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی اس نے اس ریوالور پر قبضہ جما لیا
جو ڈاکٹر گلبرٹ کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔
"تم سب اپنے ہاتھ اٹھا دو۔" عمران نے پیچھے ہٹ کر دیوار سے لگتے ہوئے
کہا۔ اس کا لہجہ بے حد سرد تھا اور اب اس نے اپنا موت کا ناچ بھی روک
دیا تھا۔
فیاض نے کراہ کر کروٹ لینے کی کوشش کی! لیکن بندش ڈھیلی نہیں تھی! اس
لئے اس میں کامیابی کا سوال نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔
"کیا تم لوگوں نے سنا نہیں!" عمران نے گرج کر کہا اور انہوں نے اپنے
ہاتھ اوپر اٹھا دیئے!
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|