اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت16-03-2010

توانائی کے متبادل ذرائع

کالم۔۔۔   محمد مبشر انوار


فی زمانہ ترقی کے لئے سب سے بنیادی چیز توانائی ہے جبکہ سیاسی استحکام و امن و امان کی صورتحال ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں کہ اگر توانائی ہی نہ ہو تو ترقی کیسے کی جا سکتی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان اس وقت ان تینوں چیزوں سے ہی دور ہے ،سیاسی صورتحال ہر دوسرے دن ایک نیا رنگ اور نیا بحران لئے ہوتی ہے تو امن وامان کی صورتحال چند دہائی قبل جہاد کے منفی اثرات کی لپیٹ میں ہے، اس سے یہ قطعی مراد نہیں کہ جہادبذات خود منفی سرگرمی ہے مگر افغان جہاد کے منفی اثرات اس وقت نہ صرف وطن عزیز بلکہ عالمی دنیا کو سموئے ہوئے ہیں۔ جہاد کی افضلیت و معنویت سے کسی طور انکار نہیں مگر افغان جہاد کے بعد ان مجاہدین کے کارنامے کسی بھی طور سراہے جانے کے قابل نہیں او ران کے اقدامات اب پاکستان کو شدید اندرونی مشکلات سے دوچار کئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال انتہائی دگر گوں ہے ۔ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص بجٹ بھی ان دہشت پسندانہ کارروائیوں سے متاثرہ شہریوں کی امداد میں خرچ ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں ازلی دشمن بھارت (بغل میں چھری میں منہ میں رام رام ) سندھ طاس معاہدے کے کھلم کھلا خلاف ورزیوں میں مشغول ہے اور دھڑا دھڑ مقبوضہ کشمیر میں آبی ذخائر تعمیر کرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنے تئیں پاکستان کو پانی کی بوندبوند کے لئے ترسائے گا اور وہ عناصر جو اس وقت مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھ رہے گموجودہ حالات میں سوائے خود کو دھوکہ دینے کے اور کوئی کمال نہیں کر رہے،کہ اگر ہندوستان کا مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرنے کا کوئی بھی ارادہ ہوتا تو ہندو بنیا کبھی بھی اس خطے میں اتنی بھاری سرمایہ کاری نہ کرتا۔ہندو بنئے کے یقینی طور پر ارادے کچھ اور ہی ہیںدوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں کہ باہم دست و گریباں ہیںاور اس لڑائی میں جو آبی وسائل میسر ہیں ان کو محفوظ بنانے کے بجائے صوبوں کے حقوق کی آڑ میں پانی کی کثیر مقدار کو ضائع کرنے پر تلے ہیں۔ یعنی نہ خود مستفید ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو مستفید ہونے کا موقع دے رہے ہیں،محسوس ایسے ہوتاہے کہ جیسے وفاق کی اکائیاں نہ ہو بلکہ دو مختلف ممالک ہوں یا کسی دشمن ملک کے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہو۔
سندھ میں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں ،جن سے توانائی کا حصول ممکن ہے(جو یقینی طور پر ایک دو ماہ میں نہیں ہو گا) لیکن اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور افسوس اس امر کا ہے کہ ہماری پلاننگ کمیشن اس سلسلے میں کسی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے یا اس کو صحیح معنوں میں کام کرنے نہیں دیا جا رہاوجہ کچھ بھی ہو نقصان ملک اور قو م کا ہو رہا ہے۔ بیدار مغز قومیں ابنے وسائل کا بھرپور استعمال کرکے اپنی قوم کی نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والے وقتوں کی ضروریات کا بھی ادراک کرتی ہیں اور اپنی منصوبہ بندی سے اپنی نئی نسل کو بہتر مستقبل کی نوید دیتی ہیں۔ ہم بے شمار معدنی و انسانی وسائل رکھنے کے باوجود اپنی آنے والی نسل کے لئے کیا کر رہے ہیں؟حیرت ہوتی ہے کہ دنیا ہر روز نت نئی ایجادات کر رہی ہے،قدرتی وسائل سے توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے منصوبے بنائے جار ہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ دستیاب وافر وسائل کے باوجود نہ صرف ان کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی بھی سر دست نظر نہیں آتی۔
ایک ای میل نے مزید افسردہ کر دیا کہ کس طرح یورپ والے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے شمسی توانائی کے حصول میں مگن ہیں۔ راقم اس سے قبل بھی اپنی ایک تحریر میں اس امر کا اظہار کر چکا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں قدرت نے چاروں موسموں کی فراوانی عطا کر رکھی ہے،سورج کی تیز کرنوں ، ہواو ¿ں کی موجیں اور سمندر کی لہریں ایسے وسائل عطا کررکھے ہوں، اس ملک میں توانائی کا بحران سمجھ سے بالا تر ہے۔ نہ جانے حکمران ایک ہی طرز کی توانائی کے حصول میں ہی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟کیا وہ اس دنیا میں نہیں رہتے؟کیا انہیں جدید طریقہ ہائے حصول کے بارے میں علم نہیں؟کیا وہ نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں لا علم ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے کہ ملکی ضروریات کوپبش نظر رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر شمسی توانائی کے حصول پر توجہ دینی چاہئے جو ابتداً یقینی طور پر مہنگی ہے مگر صرف پہلے دس سال کے لئے جبکہ بعد ازاں تقریباً بیس سال کے لئے اس سے منافع حاصل ہوتا اور تقریباً تیس سال بعدان سیلوں کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے جو شمسی توانائی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم قلیل مدتی منصوبے بھی ایسے ترتیب دے رہے ہیں جو نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ وہ ہماری ملکیت بھی نہیں ۔ وزیر اعظم صاحب سے گذارش یہی ہے کہ جناب والا دور جدید کی نئی ٹیکنالوجی کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ جرمنی والے بیگانے صحراو ¿ںمیں شمسی توانائی کے حصول کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جہاں سے توانائی کو یورپ تک پہنچانا اگلامرحلہ ہو گاجس کے متعلق بعد میں سوچا جائے گا مگر فی الوقت وہ شمسی توانائی کو حاصل کرنے میں مشغول ہیں اس کی ترسیل کا معاملہ بھی حل ہو ہی جائیگا جبکہ پاکستان کے پاس اپنا صحرا موجود ہیں جس کا کچھ حصہ اگر شمسی توانائی کے حصول کے لئے استعمال کر لیا جائے تو پاکستان میں توانائی کا بحران بہت حد تک کم ہو سکتا ہے اور یقینی طور پر اس انتظام کی لاگت کرائے کے بجلی گھروں سے بہت کم ہو گی۔ اس سلسلے میں گذشتہ دور حکومت کی فائلوں سے گرد اتار کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسا کو ئی منصوبہ زیر بحث آیا تھا یا نہیں اور اگر آیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا تھا؟اگر آج اس منصوبے کو دوبارہ دیکھا جائے اور اس کے قابل عمل ہونے کا یقین ہو تو اس کا اجراءکیا جا سکتا ہے وگرنہ بحران تو ہے ہی لیکن ایک حقیقت ذہن میں رکھنی چاہئے کہ صرف ایک مخضوص طریقہ کار سے ہٹ کر توانائی کے بحران سے نپٹنے کی پالیسی اپنانی ہو گی۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team