اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-drsajidkhakwani@gmail.com

Telephone:-        

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت08-06-2010

اسلامی قانون میں بدکاری کی سزا:حدزنا--حصہ اول

کالم۔۔۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

(جرم و اثبات جرم)
”حد“اس سزاکو کہتے ہیں جوبطور حق اﷲ تعالی مقرر کی گئی ہو ےاپھر وہ سزاجو کسی انسان کی حق تلفی ےا ایزا دہی کی پاداش میں مجرم کو دی جائے۔ایسی سزاو ¿ں کو”حد“ ےا ”حدود“اس لےے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیںیہ ”حدود“اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن و سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ”حدوداﷲ“کے زمرے میں آتے ہیںاورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔چوری،ڈکیتی،زنا،قذف،شراب خوری،ارتداداور بغاوت ان میں سے کچھ ہیں۔حدوداﷲمیں کمی بیشی کااختےار کسی کو نہیں۔اگر کوئی حاکم ایک کوڑا زےادہ لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے پوچھے گا کہ کیاتو میرے سے زےادہ انصاف کرنے والاتھااور اگر کوئی حاکم ایک کوڑا کم لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے بھی پوچھے گاکہ کیاتو میرے سے زےادہ رحم کرنے والا تھا۔
بدکاری ہر امت میں قابل سزاجرم رہا ہے اور ہر نبی اور ہر شرےعت نے اس جرم پر سزا کا تعین کیاہے۔قدرت نے انسان کو یہ صلاحےت نسل بڑھانے کے لےے عطا کی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی لذت اور مزاقدرت ایک تحفہ خاص ہے جوانسان کی ذمہ دارےوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہونے والی بورےت کے خاتنے کاباعث بنتی ہے اور انسان کوذہنی طور پر ان ذمہ دارےوں کے نبھانے کے لےے تےار رہنے پر آمادہ رکھتی ہے۔اگر یہ لذت نہ ہوتی تو ممکن ہے کوئی انسان بھی عملی زندگی کے اتنے بڑے تقاضے پورے کرنے پر تےار نہ ہوتا۔اس لذت کو محض ہوس نفس کے لےے استعمال کرنا اور اسے اپنا خدابنالینا اور اس کے عوض ذمہ دارےوں کی ادائگی سے فرار حاصل کرناکسی طور بھی درست اور جائز نہیں ہے ایسے افراد انسانی معاشروں کے نہیں انسانی نسلوں کے دشمن ہیں اور کل انسانیت کے غدار ہیں جنہوں نے اس اجتماعی صلاحےت کو محض لذت نفسانی کے لےے استعمال کر کے ضائع کر دےا۔
ایک انسان کو پورامعاشرہ پال پوس کر ،اسکی پرورش کر کے اور اسکو کھلا پلا کراور پیار محبت سے اتنا بڑا کرتاہے کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسان پیدا کرنے کے قابل ہو سکے۔کوئی اس کے لےے گندم اگاتاہے،کوئی آٹا پیستاہے،کوئی روٹی پکاتاہے اور کوئی محنت کر کے تو وہ روٹی خرےدکراسکے منہ میں ڈالتاہے۔کوئی اس کے لےے کپاس اگاتاہے،کوئی اس کپاس سے دھاگابنتاہے،کوئی کپڑا بناتاہے،کوئی سوٹ سےتاہے اور کوئی استری کر کے تواسے پہنا نے کاانتظام کرتاہے۔کوئی اسکے لےے جوتے بناتاہے،کوئی اسکے لےے سواری کاانتظام کرتاہے تو کوئی اسکی تعلیم کا بندوبست کرتاہے وغےرہ۔المختصر یہ کہ کم و بیش اٹھارہ سال تک پورامعاشرہ ایک انسان کو اس قابل بنانے میں لگارہتاہے کہ اس میں اتنی صلاحےت پیداہوجائے کہ وہ اپنے جیسے دےگر انسان پیداکرسکے۔اب اس نوجوان مردےاعورت کے پاس یہ صلاحےت پورے معاشرے کی امانت ہے اور وہ اکیلااس کامالک نہیں ہے۔اگر وہ اس امانت میں خیانت کرے گاتو پورامعاشرہ اس سے اس بددےانتی کا بدلہ لے گا اور ایسے فرد کے لےے شرےعت نے پورے معاشرے کو حکم دےاکہ اسکو پتھر مارے جائیںکیونکہ وہ پورے معاشرے کامجرم ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اس لےے اس دین کے تمام احکامات انسان کافطری تقاضاہیں۔زنا جیساقبیح فعل کسی بھی نیک فطرت انسان کو زیب نہیں دےتااور ہر پاک طینت فرد اس سے نفرین ہے۔اسلام کے جملہ احکامات میں عمل تدریج شامل ہے یعنی انسانی فطرت کے عین مطابق تھوڑے تھوڑے کر کے یہ احکامات قسطوں میں نازل ہوتے رہے چنانچہ بدکاری سے بچنے کے بارے میں سب سے پہلے تومحسن انسانیت ﷺ نے مسلمانوں سے وعدے لےے۔جو بھی مسلمان ہونے کی بیعت کرتا آپ ﷺ اس سے جہاں اور وعدے لیتے وہاں یہ وعدہ بھی لیتے کہ زنا نہیں کریں گے۔خاص طور پر خواتےن سے یہ وعدہ ضرور لیتے کیونکہ بدکاری ایسا فعل ہے جوخواتےن کی رضامندی کے بغےر ممکن نہیں،مرد کتنی ہی کوشش کر لے یہ گناہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ عورت نہ صرف یہ اسکے لےے تےار نہ ہو بلکہ اسکے جملہ تقاضے بھی اولین سطح پر خاتون کی طرف سے ہی پورے کےے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ زنا بالجبرکاشمار حد زنا میں نہیں ہوتا بلکہ یہ حد حرابہ کے ذیل میں آتاہے۔ایک زناکارانہ معاشرے میںحرمت زنا کے بارے میں مسلمانوں کی ذہنی تےاری گوےا یہ ابتدائی اقدامات تھے جن کاآغاز مکی زندگی میں ہی ہوگےاتھا۔
بدکاری کے بارے میں دوسرا حکم شرےعت اور قرآن مجید کاپہلا حکم مدنی زندگی میں سورة نساءآیت15،16میں نازل ہوا اﷲٰتعالی نے فرماےا
”تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کاکام کریں ان پراپنے میں سے چار گواہ طلب کرو،اگروہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قیدرکھو،یہاں تک کہ مو ت انکی عمریں پوری کردے ےا اﷲٰتعالی ان کے لےے کوئی اورراستہ نکالے۔تم میں سے جو دوافراد ایساکام کرلیں انہیں ایذادواگروہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھےرلوبے شک اﷲ ٰتعالی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“اس ابتدائی حکم کے بعد معاشرے میں سزاکے خوف سے اس جرم کی تعداد میں واضع کمی ہوگئی۔اسلام کے اصول نسخ کے مطابق بعد میں نازل ہونے والی آیات نے اس حکم کو منسوخ کردےااور باقائدہ سے حد زنا کاقانون اﷲٰ تعالی نے نازل فرمادےا جس کا کہ وعدہ اس آیت میں کیاگےاتھا۔اب اگرچہ ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا منسوخ ہوگےاہے۔اور اﷲٰتعالی نے اٹھارویں سپارے میں سورة نور کی ابتدائی آیات کے اندر حد زنا کا باقائدہ قانون نازل فرمادےا۔”یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیاہے اورفرض کیاہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہداےات نازل کی ہیںشاید کہ تم سبق لو۔زانیہ عورت اور زانیہ مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو،اور ان پر ترس کھانے کاجذبہ اﷲٰتعالی کے دین میں تم کو دامن گےر نہ ہواگرتم اﷲٰتعالی اور روزآخرپرایمان رکھتے ہواور انکو سزا دےتے وقت اہل ایمان کاایک گروہ موجود رہے۔“
زناکا ثبوت تےن طریقوں سے ممکن ہو گا:اقرارجرم ثبوت کاپہلاطریقہ ہے،اقرار کے لےے ضروری ہے کہ مجرم بغےرکسی دباو ¿ کے اپنی مرضی سے بقائم ہوش و حواس خود سے اقراکرے،نشہ کی حالت میں اقرار جرم کی کوئی حیثےت نہ ہوگی۔امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار بار اقرار کرنا ضروری ہے اور یہ چار بار چار مختلف مجالس میں ہو اور ان مجالس کے درمیان کچھ دنوں کاوقفہ ہونا بھی ضروری ہے۔اقرارجرم کرنے والے سے مزید بازپرس نہیں کی جائے گی اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گاکہ کس کے ساتھ اس نے بدکاری کی ہے؟کس حال میں کی ہے؟کس جگہ کی ہے؟کس وقت کی ہے؟ وغےرہ ۔اقرارکرنے والا اگر بعد میں مکر جائے تو فقہا کی اکثرےت کہتی ہے کہ اسے چھوڑ دےاجائے گا اور اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ایک خاتون آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اس نے اقرارجرم کے بعد کہاکہ اس پر حد جاری کر کے تو اسے پاک کیاجائے،آپ ﷺ نے فرماےابچہ پیدا کرنے کے بعد آنا،کچھ عرصہ بعدوہ بچہ گود میں لےے آئی آپ ﷺ نے ارشاد فرماےا تمہارے دودھ پر اس بچے کا حق ہے،وہ پھر کچھ عرصے بعد آئی اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کاٹکڑا تھا تب آپ ﷺ نے اس پر حد زنا جاری فرمائی۔
زنا کے ثبوت کا دوسراطریقہ گو اہوں کے بیانات سے اثبات جرم ہے۔زنا سمیت حدود کے مقدمات کے لےے گواہ مردہی ہونے چاہیں،اس حکم کو ماننے کے لےے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اﷲٰتعالی کا حکم ہے لیکن اس میں بہت ساری حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ اسلامی شریعت عورتوں کو گھروں سے نکال کر کچہرےوں کے آلودہ ماحول میں میلا نہیں کرنا چاہتی،پھرزنا کی تفصیلات عدالت کے روبرو بتانا ضروری ہوگا توعورت کی فطری حیا و شرم اس میں مانع رہے گی کہ مردوں کے درمیان زنا کی تفصیلات وہ کس طرح بیان کرے؟اور شہادت کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔چار مرد گواہ اس صفائی کے ساتھ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دےکھاہے کہ جس طرح سرمہ دانی میں سرمچو داخل ہوتے دیکھاجاتا ہے۔گواہوں کے لےے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہوں ،عادل ہوںاور صریح الفاظ میں گواہی کا بیان دیں،کنایہ کے الفاظ سے شہادت مشکوک ہو جائے گی اور چاروں گواہوں کے بیانات میںزمان و مکان کا تضاد بھی نہیں ہونا چاہےے ،اسلامی شرےعت کی تاسیس سے آج تک ان چار گواہوں کی بنیاد پر ایک دفعہ بھی حد جاری نہیں کی گئی۔
زنا کے ثبوت کا تےسرا اور آخری طریقہ ظہور حمل ہے ۔غےرشادی شدہ عورت اگر حمل سے ہو جائے تو یہ زنا کاکافی ثبوت ہے۔اگر عورت جبرکا دعوی کرتی ہے تواس سے ثبوت مانگاجائے گا ،ثبوت پیش کرنے پراسے کچھ نہیں کہاجائے گا۔دورفاروقی میں ایک مہمان نے اپنے میزبان کی لونڈی پر زبردستی کرنا چاہی ،لونڈی نے اسے پتھر دے مارا اور وہ مہمان مر گےا،حضرت عمر ؓکی عدالت میںلونڈی نے جبر ثابت کر دےا تو حضرت عمرؓنے اس مقتول کا قصاص و دےت بھی ساقط کر دےا اور اس لونڈی کو باعزت بری کر دےا۔ اورظہور حمل کے بعد اگر عورت نکاح کا دعوی کرتی ہے تو بھی اس سے نکاح کے گواہ مانگے جائیں گے کیونکہ نکاح صحیح کے لےے گواہ شرط ہیں،تاہم اگر کوئی عورت اپنے وطن سے دور ہے تب اس سے نکاح کا ثبوت نہیں مانگاجائے گا اور اس کے دعوے نکاح کو درست مان لیاجائے گا۔

احصہ دوم ---اجرائے حدوکیفیات
 
”احصان “سے مراد وہ شرائط ہیں جن کے پوراہونے پرزناکی سزادی جائے گی۔اور جو شخص ان شرائط کوپوراکرے گا اسے ”محصن“کہیں گے۔”محصن“ کے لےے سب سے پہلی شرط اسلام ہے کیونکہ غےرمسلم پر حد جاری نہیں کی جائے گی،دوسری شرط عقل و بلوغ ہے کیونکہ جملہ احکامات شرےعت عاقل اور بالغ شخص پر ہی عائد ہوتے ہیں،آزادی بھی ایک شرط تھی لیکن اب چونکہ دورغلامی گزرچکااس لےے یہ شرط اپنی عمر پوری کر چکی۔رجم کی سزا کے لےے شادی شدہ ہونا بھی شرط ہے اورضروری ہے ”محصن“اپنے زوج سے بطریق مباح مجامعت کر چکا ہو۔جو زانی شادی شدہ نہ ہو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے۔”احصان“ کی پہلی شرط مسلمان ہونے میں اکثر علماءکا اختلاف واقع ہوا ہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے ایک یہودی جوڑے پر بھی حد زنا جاری فرمائی تھی تاہم یہ بات زےادہ قرین قےاس معلوم ہوتی ہے کہ غےر مسلم چونکہ اسلامی احکامات کے مکلف نہیں ہیں اس لےے ان پر حدوداﷲٰ نافذ نہیں ہوں گی،جہاں تک یہودی جوڑے پر حد جاری کرنے کا تعلق ہے تو وہ آپ ﷺ نے توریت کے حکم کے مطابق فیصلہ صادر فرماےا تھا۔
سنت رسول اﷲٰ ﷺنے شادی شدہ زانی کے لےے رجم کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ایک حدیث نبویﷺکے مطابق کسی مسلمان کاخون تےن صورتوں کے علاوہ جائزنہیں،قتل ،ارتداداور محصن (شادی شدہ)زانی۔متعددواقعات بھی سنت رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہیں جن میں آپ ﷺ نے محصن زانی کو رجم کرنے کا حکم دےا اور مسلمانوں نے اسکو رجم کیا،ماعذ،غامدیہ اور یہودےوں کاجوڑا اسکی بہت مشہور مثالیں ہیں۔دورخلافت راشدہ میں بھی اسی پر تعامل رہا۔اگرچہ کچھ علماءصرف اتنی سختی کرتے ہیں کہ وہ محصن جو عادی زانی بن چکاہو اور کسی صورت باز نہ آتا ہو صرف اسی کو ہی رجم کیاجائے گالیکن یہ موقف جمہورعلماءکی رائے سے متصادم ہے اس لےے کہ تب تو کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہے گا کہ کوئی کتنی دفعہ بدکاری کرے اور تب ہی اس کو عادی بدکار تصور کیاجائے۔کچھ علماءکرام نے رجم کی سزاکوسورة مائدہ کی آیت حرابہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ محض تکلف بے جا ہے۔جب شرےعت اسلامیہ میں خود کتاب اﷲ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اﷲ تعا لی کے رسول ﷺ قانون سازی کر سکتے ہیں تو پھرنبوی فیصلوں کو ماننے میں کیامر مانع ہے؟؟اور منکرین حدیث کے پیچھے چلنے کی کیاضرورت ہے؟؟ایک حدیث مبارکہ میں غےرشادی شدہ زانی کے لےے سوکوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی کی سزا بھی مذکور ہے لیکن علماءنے جلاوطنی کی سزاکو تعذےر کے ضمرے میں رکھاہے اس لےے کہ زانیہ کو جلاوطنی کی سزا دےنے میں کئی شرعی امور مانع ہیں۔
حدود کے معاملات کے لےے عدالت کاہونا ضروری ہے۔پنچائت،جرگہ،مسجدےا گلی محلے میں حدودکے فیصلے نہیں ہوسکتے۔عدالت میں جب بدکاری ثابت ہوجائے گی تو اسکی سزاکے انتظامات کےے جائیں گے۔سب سے پہلاانتظام جس کاقرآن نے حکم بھی دےا کہ سزاسرعام دی جائے گی۔چھپ کر کال کوٹھڑی میںسزائیں دےنا انگریزکاقانون ہے۔سزاکاایک مقصد جہاں مجرم کو تکلیف پہچاناہے وہاں اس سے بڑا مقصددوسروں کو اس فعل بد کے عبرت انگےزانجام سے آگاہ کرنا بھی ہے۔سزادےنے کاسب سے بڑامقصد اس قبیل کے جرائم کی بیخ کنی ہوتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک زمانہ دیکھے اور اس مجرم کے انجام سے عبرت حاصل کرے اور آئندہ جس کسی کے دل میں اس جرم کے کرنے کاخیال بھی پیداہو تو اپنے پیش رو مجرم کا آنکھوں دیکھاحال اسے اس جرم سے بزروروک دے۔حدزنا سمیت شرےعت اسلامیہ نے جتنی بھی سزائیں مقررکی ہیں ان کے لےے مسلمانو کی ایک تعداد کے سامنے اس سزاکادینا لازم ٹہراےاہے۔کوڑوں کی سزا کی کیفےت اس طرح ہوگی:
1۔ گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردےوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں جا ئے گا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قےاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر قاضی ےاحاکم اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم ےا ظہور حمل سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی ےاحاکم کرے گا، پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔کوڑے لگاتے وقت جلاد کا ہاتھ کندھے سے اوپر نہیں جائے گااور اسکی بغل بھی نظر نہیں آئے گی۔
8۔مریض کی صورت میں شفاکاانتظارکیاجائے گا۔
9۔حالت حمل میں سزا نہیں دی جائے گی۔
رجم کی سزا کیکیفیات اس طرح ہوں گی:
1۔اقرار کی صورت میں سزاکاآغاز قاضی یاحاکم کرے گااور پھر عوام۔
2۔گواہوں سے جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزاکاآغاز گواہ پھر قاضی یاحاکم اور پھر عوام بھی شریک سزا ہوجائیں گے۔
3۔اوسط درجے کے پتھروں سے ماراجائے گااورچہرے پر پتھر نہیں مارے جائیں گے۔
4۔حاملہ کے لےے وضع حمل اور مدت رضاعت تک انتظار کیاجائے گا۔
5۔مجرم اگر بھاگنے لگے تو اسے گڑھے میں دباےا جاسکتاہے۔
حد جاری ہوچکنے کے بعد مقتول کوپورے ادب و احترام کے ساتھ غسل اور کفن دےاجائے گااور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گا۔ایک عورت کو رجم کرنے کے بعدکسی مسلمان نے اس عورت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے،اس پر آپ ﷺ ناراض ہوگئے اور ارشاد فرماےا کہ اس عورت کی توبہ اگر اہل مدینہ پرتقسیم کی جائے تو سب ہی معاف کردےے جائیں۔کیونکہ جسے کسی گناہ کی سزااس دنیامیں مل جائے تو روز قےامت اس سے بازپرس نہیں ہوگی اور جو گناہ کرنے کے باوجود اس دنیامیں سزاسے بچ گےااب اﷲ تعالی کی مرضی ہے کہ روزقےامت اسے سزادے ےامعاف کردے۔
حد جاری کرنے کے دوران کسی طرح کاترس کھانادرست نہیں۔ظالم پر ترس کھانا مظلوم کے ساتھ زےادتی ہوتی ہے،اور اس جرم کا مظلوم پورامعاشرہ ہے بلکہ انسانی نسل بھی ہے اس لےے کہ جس کے گھر میں پناہ گاہ موجود ہے اور پھر بھی وہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلتاہے اورنسلوںکے نسب مشکوک کرتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں اسی سزاکاہی مستحق ہے کہ اسکے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کردےاجائے۔یہ بھی درست کہ زنا کی یہ سزا بہت شدےد ہے اس لےے کہ یہ جرم بھی اتنا ہی یا شاےد اس سے بھی زےادہ شدےدہے۔صرف زنا کی تہمت لگا دےنے سے ہی حد قذف کے اسی کوڑے انسان کی کمر پر لگنا ضروری ہو جاتے ہیں تو عملاََ یہ جرم کتناقبیح اور کتنا غلیظ ہوگا؟؟۔حضرت مریم علیہ السلام کو جب جبریل بیٹے کی خوشخبری دی اور انہوں نے پاکدامنی سے محض حکم ربی کی بناپر بچہ جناتو صرف بدکاری کی تہمت کے خوف سے انہوں نے فرماےا جس کو قرآن نے سورہ مریم آیت23میںنقل کیاہے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور مےرانام و نشان تک نہ رہتا،حالانکہ وہ خود اپنی پاکدامنی سے آگاہ تھیںاورجبریل انہیں تسلی دے رہاتھااور اﷲ تعالی ان کی معصومیت پر گواہ تھا۔
زنا کی سزا سے پہلے دوائی زنا کو روکنا ضروری ہے،دوائی زنا سے مراد وہ راستے ہیں جہاں سے زناکے دروازے کھلتے ہیں۔ معاشرے میںزناکارانہ ماحول ختم ہو اور آزادانہ آشنائیاں بندکردی جائیں،مخلوط تعلیم اور مخلوط محفلوں سے احتراز کیاجائے ،معاشرے میں حجاب اور نقاب کارواج عام کیاجائے،نوجوانوں کو سخت کوشی کاعادی بناےاجائے اور انہیں فوجی اور نیم فوجی زندگی کاعادی بناکر عورتوں سے دوررکھنے کاانتظام کیاجائے اور سب سے زےادہ یہ کہ تقوی اور دینداری کو لوگوں کی عادات میں شامل کیاجائے تب ہی اس قباحت اور حرام کاری سے معاشرے کا بچناممکن ہے۔حکومت وقت اورمعاشرہ پہلے ایسے انتظامات کرے کہ زنا کے دروازے بند ہوتے چلے جائیں،لوگوں کی عزت و ناموس محفوظ ہوتی چلی جائے اور خواتےن اپنے فطری امورجن میں امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت ہے اس میں مصروف رہیں ۔ جیسے جانوروں اور پرندوں کے بالغ ہوتے ہی فطرت انہیں جوڑاجوڑاکر دیتی ہے اسی طرح نوجوانوں کی بروقت شادےاں کردی جائیںتو اس جرم سے بہت کچھ بچت ہو سکتی ہے۔اسلامی شرےعت قطعاََنہیں چاہتی کہ معاشرے سے بدکاری کے دروازے بند کےے بغےرلوگوں پر کوڑے اور پتھر برسانے شروع کر دےے جائیںلیکن جب دوائی زنامسدود ہوجائیں تو پھر کسی زانی کو معاف نہ کیاجائے کہ یہی منشائے خدا ہے اور اسی میں انسانیت کا بھلاہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team