E-Mail:- awamkisoch@yahoo.com
گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں میڈےا کے خلاف متفقہ طور قرار داد مذمت
منظور کی گئی قرار داد میں کہا گےا کہ ذرائع ابلاغ کے ایک حصے کی طرف
سے جمہوری اداروں اور سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر ایوان کو
تشویش ہے قرار داد میں میڈےا ذمہ داران سے مطالبہ کیا گےاکہ پروگرام
میں سےاسی رہنماﺅں کے توہین آمیز پروگرام کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
آزادی رائے ممنوع تھی آمر کے دور میں
لگی ہے پابندی جمہوریت کے زمانے میں
ےہ کہ کر منظور کر لی قرارداد مذمت ملک
نہیں رکھتا ثانی میڈےا حکومت کو ستانے میں
میڈےا پر پابندی آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے صحافت ریاست کا چوتھا
ستون ہے آزادی صحافت پر اس خودکش حملے کے بعد صحافتی تنظیموں اور ملک
کے تمام صحافیوں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس قرارداد کے خلاف ملک
گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے صحافیوں کے ساتھ اس مذمتی
قرارداد کے خلاف احتجاج میں سول سوسائٹی اور وکلاءبرادری ساتھ دے رہی
ہے اورجمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو اپنا واضح پیغام ان الفاظ میں
دے رہے ہیں کہ
ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا
ثناءاللّہ مستی خیل جس نے ےہ قرارداد پیش کی وہ کل تک تو ق لیگ کی
حکومت میں مزے لوٹتے رہے اور آج ن لیگ میں بھی عیش کر رہے ہیں ان کی
انگریزی کا ےہ عالم ہے کہ وہ جب اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے تو وہ Jسے
جنرل بول رہے تھے میڈےا کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کے ردّعمل میں مختلف
سےاسی پارٹےوں کے مختلف قسم کے بےان آنا شروع ہو گئے ہیں جس میں سے ہر
پارٹی کا موقف ےہ ہے کہ وہ میڈےا کی آزادی پر ےقین رکھتی ہیںسب سے اہم
بےان مسلم لیگ (ن) کے قائد جناب میاں نواز شریف کا ہے ان کا کہنا تھا
کہ انہیں آزاد میڈےا ،آزاد عدلےہ کی طرح عزیز ہے شہباز شریف ،ثناءاللّہ
مستی خیل کو پارٹی سے باہر نکال پھینکیں دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب
جناب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ میڈےا پر پابندی ہماری پالیسی کا
حصہ نہیں ہے ۔
اب سوال ےہاں پر ےہ جنم لیتا ہے کہ ہاﺅس آف دی لیڈر کی موجودگی میں ان
کے اپنے رکن اسمبلی کی طرف سے قرارداد مذمت آئے اور متفقہ طور پر منظور
بھی ہو جائے اس پر شور مچانے والوں کو لوٹا کہا جائے اور بعد میں سب
پارٹےاں ےہ موقف اختےار کریں وہ آزاد میڈےا کے حامی ہیں لیکن اس وقت
اسمبلی میں کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی تھی اب دیکھنا ےہ ہے کہ مسلم
لیگ (ن) اس قرار داد کو واپس لیتی ہے کیونکہ آج تک پنجاب اسمبلی کی
تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قرارداد کو واپس لیا گےا
ہوےا پھر پیپلز پارٹی ےا مسلم لیگ (ق) کی طرف سے میڈےا کی آزادی کے
بارے اور آزادی صحافت کے حق میں قرارداد پیش ہوتی ہے۔
میڈےا کے خلاف قرارداد مذمت پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تو ےہ
بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور لیڈرز میں سچ سننے کی
برداشت نہیں ہے وہ ےہی چاہتے ہیں کہ میڈےا ہمارے نیگٹو پہلو پر پردہ
ڈالے رکھے اور جعلی ڈگریوں کے ایشوز کو زےادہ نہ اچھالا جائے۔
|