اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔23-05-2011

ہزارپا
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار

دانشوروں کے ایک مکتبہ فکر کے دلائل سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بچاو ¿ کا واحدراستہ یہی بچا ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کے اشاروں پر خود کو چھوڑ دیں اور اگر وہ ہماری خدمات سے خوش ہو جائیں تو ممکن ہے ہمارے بچنے کی کوئی راہ نکل آئے جبکہ دوسرے مکتبہ فکرکے دانشوروںکے دلائل سنیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سروں کی فصل پک چکی ہے اور کوئی دم جاتا ہے کہ اس کی کٹائی شروع ہو جائے گی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حقیقی تبدیلی کا خواہشمند ایک پاکستانی ہمیشہ سے اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ واقعی اس مرتبہ حالات ایسے ہیں کہ اب حقیقی تبدیلی چند دنوں کی بات ہے اور پاکستانیوں کی یہ خوش گمانی ہمیشہ سراب ہی ثابت ہوئی ، دیوانے کا خواب ہی رہی کہ حقیقی تبدیلی کی علامات کے پورا ہونے سے پہلے ہی پس بردہ قوتیں سارے منظر نامے کو اس مہارت سے بدل دیتی ہیں کہ پاکستانیوں کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا اور انہیں ایک بار پھر سے امیدوں کے نئے خواب دکھا کر حقیقی تبدیلی کو روک دیا جاتا ہے اگر سویلین حکمرانی کر رہے ہیں تو فوج پس منظر سے پیش منظر میں آ جاتی ہے اور اگر کوئی آمر حکمران ہے تو سویلین کو حکمرانی دے دی جاتی ہے۔
اس سارے نظام کے پیچھے ایک ایسی طاقت ہمیشہ موجود رہی جو اس بلی چوہے کے کھیل کو یقینی بناتی رہے اور ایسے حالات بھی پیدا کرتی رہی کہ تبدیلی کا جواز ممکن ہو سکے۔سول حکومت ہو تو اس کو ایسے ایسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ کیسے عوامی بہبود کے منصوبوں پر عمل درآمد کرے تو دوسری طرف انہیں اس حقیقت کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہیں یہ موقع محدود مدت کے لئے ملا ہے لہذا اس مدت میں اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ ان کے مفادات کا بھی تحفظ کرنا ہے جن کی وجہ سے وہ اقتدار میں بیٹھے ہیں۔ سویلین حکمرانوں کو ہمیشہ یہ یقین بھی دلایا جاتا ہے (جب تک وہ اقتدار میں رہتے ہیں)کہ اب اسٹیبلشمنٹ واپس نہیں آئے گی اور سویلین حکمران بھی ببانگ دہل اس کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ اب عوامی دور ہے لیکن عوامی حکمران اس حقیقت کو بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ پس پردہ ہاتھ ہمیشہ اپنے لئے مہروں کی تراش خراش میں مصروف رہتے ہیں اور کسی بھی صورت اقتدار حقیقتاً عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں ہونے دیتے۔ پس پردہ یہ ہاتھ بے شک گنتی کے ہوتے ہیں ،چند ایسے دماغ ہوتے ہیں جن کے اختیار میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت ہوتی ہے اور یہی دماغ اور ہاتھ اپنے وسائل اور وسیع تر افرادی قوت، پراپیگندہ سیل اور میڈیا کے ساتھ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے نئے مہرے تراشنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔اس عمل میں بالعموم انہیں امریکی آشیر باد بھی حاصل ہوتی ہے کہ امریکہ کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک سے زائد مہرے تیار رکھتا ہے تا کہ ہر دو صورتوں میں اس کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لئے امریکہ نے ایک مربوط نظام ترتیب دے رکھا ہے۔جس کا ثبوت چند دن پہلے جناب نذیر ناجی نے اپنی ایک تحریر میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے سے قبل ہی سیاستدانوں کے بیانات کی گرمی کو سامنے رکھتے ہوئے فوجی قیادت نے سیاستدانوں کے مبینہ ثبوت کو الماریوں سے نکال لیا تھا تا کہ سیاستدانوں کو آئینہ دکھایا جا سکے جو اس زعم میں تھے کہ اب فوج پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہو جائیگی۔
اگر پاکستان کی مثال کو سامنے رکھیں تو اس نظام میں ہمارے فوجی جنرل امریکہ کے ان عزائم کی تکمیل کرتے نظر آتے ہیں اور پاکستان میں ایسے مہرے تراشنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔یہ حقیقت بھی زبان زد عام ہے کہ کچھ مذہبی جماعتیں فوج کی بی ٹیم کا کام کرتی ہیں اور بالعموم عوام کو متحرک کرنے کے لئے حیلے بہانوں سے ایک مخصوص ٹولے کو حرکت میں لے آتی ہیں جو نظام حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ سیاسی جماعتیں وقتاًفوقتاً انقلاب اور حقیقی تبدیلی کا نعرہ لگا تے ہوئے اس نظام کے چلانے والوں پر براہ راست شدید تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر جب ان سے روابط قائم ہو جاتے ہیں یا جب اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ ان سے ملے بغیر اقتدار نہیں مل سکتا اور اگر اقتدار نہ ملا تو عین ممکن ہے کہ ہمارے کارکن بتدریج ساتھ چھوڑتے جائیں تو در پردہ انہی قوتوں سے مل جاتے ہیں کیونکہ یہ طاقتیں آنکھوں میں انتہائی خوش نما خواب سجا دیتی ہیں اور ان سے نظر ہٹانا اپنے سیاسی قد اور حالات کی وجہ ممکن نہیں رہتا۔
انقلاب اور حقیقی تبدیلی صرف اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ان کے ماخذ حقیقتاً تبدیلی کے خواہشمند ہوں گے اور پاکستانی بن کر سوچیں گے جب کہ فوج کا نظام ایسا لگتا ہے کہ ہائی کمان تک وہ ہی پہنچ پاتا ہے جو اس نظام کا حصہ بننے کی یقین دہانی کرائے ،مفادات کے تحفظ کی ضمانت دے ، وقت آنے پر خود آگے بڑھ کر اقتدار سنبھال کر حقیقی تبدیلی اور انقلاب کا راستہ بخوبی روک سکے اور عوام کو پھر سے نئی امیدوں کے خواب دکھائے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے حالات کو کوئی معجزہ ہی تبدیل کر سکتا ہے یا اول الذکر دانشوروں کی دلیل کہ ہم اعلانیہ یا غیر اعلانیہ سپر پاور کے سامنے سر جھکا دیں کہ مو ¿خر الذکر دانشوروں کی دلیل کے مطابق سروں کی فصل پک نہیں رہی کہ مسلسل اس فصل کو پکنے سے پہلے ہی کسی مصنوعی طریقے سے روک دیا جاتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے حالات کسی ایک طبقے کے کنٹرول میں نہیں اور اسے کسی ہزارپا نے ایسے جکڑ رکھا ہے کہ یہ خواہ لاکھ ہاتھ پیر مارے یہ اس کے شکنجے سے نکل نہیں سکتے اور نہ ہی وہ اس کو چھو ڑنے کے لئے تیار ہے لیکن معجزوں کے رونما ہونے کا کسی کو علم نہیں ہوتا مگر جب معجزہ روپذیرہونا ہو تو پھر اس کو دنیا کی کوئی سپر پاور بھی نہیں روک سکتی۔


 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved