اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔14-06-2011

محدود اقتدار، محدود مسائل کے حل تک
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار
تاریخ شاہد ہے کہ انقلاب کا راستہ ہمیشہ ان طاقتوں نے روکا جن کے مفادات انقلاب سے براہ راشت متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ 1400 سال پہلے اسلامی انقلاب مشرکین کے مفادات سے متصادم تھا لہذا انہوں نے اس انقلاب کا راستہ روکنے کی بھر پور کوشش کی،1200 سال پہلے انگلستان میں ہونے والی تبدیلیاں براہ راست شاہی خاندان اور کلیسا کے مفادات سے متصادم تھے لہذا مفادات کے پیرو کاروں نے ان تبدیلیوں کاراستہ روکنے کی کوشش کی گئی،200 سال قبل کی بات ہے جب مفادات کے پجاریوں نے انقلاب فرانس کو روکنے کے کوشش کی،100 سال قبل کی بات ہے جب برصغیر میں ہونے والے انقلاب کا راستہ روکنے کے مسلح کوشش کی گئی،فلپائن ،ایران کے انقلابات کوئی نہ روک سکا، حال ہی میں مفادات کے پجاریوں نے مصر میں انقلاب کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر سب بے سود اور عوامی سیلاب کے سامنے کوئی بھی نہ ٹک سکا اور آخر کار منظر نامے سے ہٹ گئے۔
پاکستان معرض وجود میں آتے ہی مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ گیا اور آج تک ان کے ہاتھوں میں محبوس ہے۔ پاکستان میں جب بھی خستہ حال عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو آیا تو انہی مفاد پرستوں نے حالات کو ہاتھوں سے گنوانے کی بجائے ، ایسے اقدامات کئے کہ وہ لاوا جو عوام کے ذہنوں اور دلوں میں ابھرتا نظر آ رہا تھا، وہ ایک بار پھر نئے خواب دکھانے والوں کے ہتھے چڑھ کر اگلے چند سال مزید اس امید میں سو گئے کہ ممکن ہے نیا چہرہ ان کے دکھوں کا مداوا بن سکے مگر افسوس کہ عوام کا یہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اورمراعات یافتہ گدھوں کا ایک مخصوص ٹولہ عوام کے رگ وجان کو نچوڑنے میں ہنوز مصروف ہے لیکن آج کے پاکستان میں جو کچھ عوام کے ساتھ ہو رہا ہے،اس صورتحال میں ایک بار پھر یہ نظر آرہا ہے کہ عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور کوئی وقت جاتا ہے کہ عوام پھٹ پڑیںگے اور اس کا احساس ایک بار پھر مراعت یافتہ طبقے کو نظر آ رہا ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر پرانی ترکیب استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تا کہ عوام کو ایک بار پھر لالی پاپ دیا جا سکے۔
اس مرتبہ جو نیا چہرہ عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بلا شبہ عوامی ہیرو ہے ، ایک کرشماتی شخصیت بھی ہے مگر ایک مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں جب کہ سیاسی سطح پر وہ اپنی کرشماتی شخصیت کا جادو جگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ حالات و واقعات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اب نیا چہرہ عمران خان کا ہو گا کیونکہ عوام دوسرے تمام سیاستدانوں کو آزما چکے ہیں اور یہ سیاستدان عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ سیاسی رہنما نہ صرف ملک کو غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں ڈبو چکے ہیں بلکہ اپنی تجوریوں اور غیر ملکی اثاثوں میں بے انتہا اضافہ کر چکے ہیں۔اس پس منظر میں ملکی سیاسی افق پر فقط عمران خان کی شخصیت ایسی نظر آتی ہے جو اس طرح کی کرپشن میں ملوث نہیں رہے اور ان کا دامن اپنے ہم عصر سیاستدانوں سے مختلف ہے ۔اس وقت پاکستان کے مسائل بلا شک و شبہ بے انتہا ہے مگر چند سر فہرست مسائل میں کرپشن کا خاتمہ،کڑا احتساب ، میرٹ کی بحالی اور اداروں کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔غور سے دیکھیں تو اس وقت جناب عمران خان کا منشور بھی انہی باتوں کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی تائید ایک مخصوص طبقے کی طرف سے ہوتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔ جناب عمران خان اور ان کے رفقاءلاکھ کہتے رہیں کہ انہیں عواممی حمایت حاصل ہے اور وہ عوامی طاقت سے تبدیلی لائیں گے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جس وثوق کے ساتھ جناب عمران خان نے اگلے انتخابات میں کلین سویپ کرنے کا اظہار کیاہے ، اس کے پس پردہ محرکات سے کوئی بے بصیرت شحص ہی انکار کر سکتا ہے کہ سیاسی افق پر کامیابی ،ورلڈ کپ میں کامیابی سے مختلف ہوتی ہے۔قطع نظر اس حقیقت سے کہ جناب عمران خان اپنی کامیابی سے متعلق اتنے پر امید کیوں ہیں؟اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے عوام الناس بری طرح متاثر ہے اور مراعات یافتہ طبقہ عوامی نبض کو سمجھ رہا ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ اس مرتبہ قرعہ فال جناب عمران خان کے نام ہی نکلے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں کی طرح جناب عمران خان کو بھی محدود اقتدار دیا جائے لیکن صرف اتنی اجازت کے ساتھ کہ جو اہم مسائل(جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) ان کو حل کرنے کے لئے اپنی پوری دیانت داری سے کام لیتے ہوئے بے لاگ احتساب کر کے عوامی پیسہ ،موٹے پیٹ والوں سے واپس لیا جائے۔ جب ایسا بے لاگ احتساب شروع ہو تو ممکن ہے کہ عدالتیں،جو اس وقت انتظامیہ کے لیت ولعل کی وجہ سے اپنے احکامات پر کما حقہ عمل درآمد کروانے سے قاصر ہیں، اس میں کامیاب ہو سکیں اور کسی انتظامی تبدیلی کے بغیر ایماندار اور ملک کا درد رکھنے والے افسران کی کاوشوں سے ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
جناب عمران بطور منتظم کے اپنی بہترین صلاحیتیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اچھے رفقاءکے ساتھ ملکی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن یہاں اس حقیقت کو ضرور مد نظر رکھیں کہ جناب عمران خان بے شک ملک میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں مگر مراعات یافتہ طبقہ انہیں ایک حد سے تجاوز نہیں کرنے دے گااور انہیں محدود اقتدار فقط محدود مسائل کے حل تک کے لئے دے گا اس کی وجہ فقط اتنی ہے کہ اس وقت مراعات یافتہ طبقے کے مفاد براہ راست عوامی غیض و غصب کا شکار ہو سکتے ہیں ، انقلاب کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی چھوٹا سا لالی پاپ ایک بار پھر عوام کو دے دیا جائے تا کہ ان کے مفادات کا تحفظ یقینی رہے۔ باقی واللہ اعلم
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved