اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-07-2011

انتخابی میدان سج رہا ہے
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار
پاکستان کا سیاسی درجہ حرارت دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ایک طرف مسلم لیگ ن حقیقی اپوزایشن کا روپ دھار رہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف اپنے پورے انتخابی جوش و خروش سے میدان سیاست میں بروئے کار ہے۔ ان دو جماعتوں کے علاوہ حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی حکومت سے الگ ہوئی ہے وہ کسی اور ہی صورت کی منظر کشی کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ن لیگ کے قائدمیاں نوناز شریف نے جو لب و لہجہ اختیار کیا اور اس کے جواب میں صدر زرداری نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر جو سخت انداز اپنایا، وہ اس امر کا غماز ہےکہ اس ہلچل کے پیچھے انتخابی مہم کار فرما ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت اپنے اس مو ¿قف پر مصر ہے کہ وہ سب اصولی سیاست کر رہے ہیںمگر در حقیقت کوئی بھی سیاست دان اصولی یا نظریاتی سیاست نہیں کر رہی بلکہ تمام سیاست دان اس کے بر عکس فقط اقتدار،اختیار اور عہدے کی سیاست کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے سماجی کلچر ایسا ہے جس میں کسی بھی سیاستدان کی وجہ شہرت اس کے اصول نہیں بلکہ اس کا اثرورسوخ ہے کہ وہ کس حد تک حکومتی اداروں میں دخل اندازی کر سکتا ہے۔ اس خطے مین سیاست کا بنیادی اصول فقط حصول اقتدار ہے نہ کہ عوامی خدمت یا نظریاتی سیاست۔ نظریاتی و اصولی سیاست کا دور اس ملک سے مدت ہوئی ختم ہو چکا، جس میں پہلا دور بلاشبہ قائد اعظم کا تھا جبکہ ان کے دست راستلیقت علی خان بھی مغربی پاکستان میں اپنا اثرورسوخ بنانے کے چکر میں اصولی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے، دوسرا دور بھٹو کا تھا جب ایک نظریئے کی بنیاد پر سیاست ہوئی اور بڑے بڑے سیاسی برج اس ریلے میں الٹ گئے مگر یہ دور بھی خلصتاً نظریاتی نہ رہا بلکہ بہت سے دوسرے تضادات کی نذر ہو گیا ، بعد ازاں سیاست فقط کاروبار اور حصول اقتدار کا ذریعہ بنی۔
حصول اقتدار کی خاطر جو مروجہ طریق کار ہے اس کی خاطر منتخب اسمبلیوں میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے مگر بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتں میں آج کوئی بھی سیاسی جماعت اس قابل نہیں کہ تن تنہا اپنی اکثریت ثابت کر سکے لہذا اقتدار کی خاطر مخلوط حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں اور ہر جماعت حصہ بقدر جثہ وصول کرتی ہے جبکہ بعض اوقات تو حصہ،جثے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ دنیا میں کہیں اور مخلوط حکومتیں نہیں بنتی مگر دوسرے ملکوں میں کسی قدر عوام الناس کا خیال بھی کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں اگر حصہ نہ ملے ، مطالبات پورے نہ ہوں تو مخلوط حکومت سے الگ ہونے میں،بلیک میل کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھی جاتی اور ہمیشہ اقتدار سے الگ ہونے کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کا نام دیا جاتا لیکن مزید حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہی اتحادی چند روز بعد دوبارہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک بار پھر حکومت میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ عمل اگر ایک بار ہو تو غلطی ہو سکتی ہے مگر مسلسل ایسا عمل ماسوائے مفادات کے حصول او رکچھ نہیں کہلا سکتا۔اس عمل کے پس پردہ فقط مطالبات نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات کچھ نادیدہ ہاتھ بھی اس میں پائے جاتے ہیں، جن کے اشاروں پر یہ سب کھیل تماشہ ہوتا ہے اگر حکومت ان پس پردہ قوتوں کی تابعداری کرتی رہی تو سب خیر ورنہ ریت کے ذروں کی طرح اتحادیوں کو الگ کروالیا جاتا ہے اور اسی عمل کو وسیع تر قومی تر مفاد کا نام دے دیا جاتا ہے اور حکومت ان پس پردہ قوتوں کی تابعداری کرتی رہے تو باہر بیٹھی اپوزیشن حکومت کو ڈکٹیشن لینے کے طعنے دیتی نظر آتی ہے۔چونکہ یہ سب سیاسی جماعتیں کہلاتی ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دوسری سیاسی جماعت کا راستہ روکا جائے تا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرکے ،دوسری علاقائی و لسانی جماعتوں ،کو ان کے روزگار سے محروم نہ کردے۔ ایسی جماعتیں جو عموماً پریشر گروپ کی حیثیت رکھتی ہیں اور وقت بے وقت اپنے راگ الاپنے میں مصروف رہتی ہیں کسی صورت بھی اپنی حیثیت کا ختم ہونا گوارا نہیں کرتی۔ اس مقصد کے لئے مختلف جوڑ توڑ ہمہ وقت جاری رہتے ہیں، دوسری جماعتوں سے رابطے بھی برقرار رہتے ہیں اور ایک دن پہلے تک جن کے متعلق ہذیان تک بولا جاتا ہے، پگڑیاں تک اچھالی جاتی ہیں ، اگلے روز ان ہی کے ساتھ گلے ملا جاتا ہے۔ اس جوڑ توڑ کو ہی سیاسی چالیں کہا جاتا ہے اور کسی بھی حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کو مضبوط تر بنائے جبکہ مخالف جماعتیں اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے دو ادارے ہیں ، موخرالذکر کے انتخابات مارچ 2012میں ہونا ہیں اور اس وقت سیاسی ہلچل کے پس منظر میں یہ انتخاب بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیںکہ حکومت مخالف جماعتیں کسی بھی صورت حکومت کو سینٹ میں برتری دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی پی پی،وفاقی، سندھ،خیبر پختونخواہ، بلوچستان ،گلگت بلتستان میں حکومت چلا ررہی ہے اور اب آزاد کشمیرمیں بھی واضح اکثریت حاصل کرکے ،حزب مخالف ،حسب ماضی دھاندلی کس الزامات عائد کرر ہی ہے،حکومت بنانے کے قریب ہے۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی منتخب اداروں میں واضح برتری (اس کے دور حکومت میں ہونے والے مختلف انتخابات کے نتیجے میں،حاصل کر چکی ہے اور اب اس کی اگلی نظر سینٹ پر ہے جبکہ اپوزیشن اس سے قبل ہی وسط مدتی انتخابات کی خواہشمند نظر آتی ہے تا کہ پی پی پی کو روکنے کا ایک تیر اس کے پاس رہے۔اس سے یہ حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ملک میں فقط دو سیاسی جماعتیں ہی موجود ہیں ، ایک پی پی پی اور دوسری اینٹی پی پی پی۔
موجودصورتحال میں صدر زرداری کا ذکر بر محل ہو گا کہ مفاہمتی سیاست کے نام پر جو جوڑ توڑ صدر زرداری کر رہے ہیں، اس کے سامنے اپوزیشن بے بس نظر آتی ہے۔صدر زرداری ہر گذرتے پل کے ساتھ اپنی پوزیشن کو مضبوط تر کرتے نظر آتے ہیں،فوج کے ساتھ تعلقات میں واضح برتری ،مخالفین کے ساتھ کامیاب مذاکرات، ان کی کامیاب مفاہمتی سیاست کا منہ بولتا ثبوت تو ہیں لیکن اس سب کے باوجود مفاہمتی سیاست کا دوسرا نام بے اصولی و اقتدار کی سیاست ہے لیکن کیا صدر زرداری اپنی ان پالیسیوں، اپنی ان سیاسی چالوں کے باوجود اٹھنے والے سیاسی طوفان کے سامنے کھڑے رہ سکیں گے یا انہیں وسط مدتی انتخابات ،سینٹ کے انتخابات سے پہلے کروانے پڑیں گے؟اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن اپوزیشن اپنی پوری طاقت کے ساتھ وسط مدتی انتخابات کے لئے یقیناً بروئے کار لا رہی ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved