اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-08-2011

میثاق جمہوریت کے ثمرات
کالم    محمد مبشر انوار
میثاق جمہوریت کو اگر پاکستان کی تیسری مقدس دستاویز کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ پہلی مقدس ترین کتاب بلاشبہ قرآن کریم اور دوسری مقدس ترین کتاب ملکی آئین ہی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں ان مقدس ترین دستاویز کو وہ تقدس حاصل نہیں رہا جس کی یہ کتب مستحق ہیں۔ قرآن کریم کو ہم نے فقط خوبصورت غلافوں کی زینت بنا رکھا ہے جبکہ ملکی آئین (۳۷۹۱)کا دو مرتبہ آمروں کے قدموں میں روندا گیا ہے۔ اس پس منظر میں تیسری مقدس ترین دستاویز میثاق جمہوریت تھی،جس کو چند لوگوں نے مذاق جمہوریت بھی کہا، یہ حقیقت ہے کہ مو ¿خر الذکر دونوں دستاویز آسمانی صحیفے نہیں اور ان میں ترمیم بھی ہو سکتی ہے ، ان کو رد بھی کیا جا سکتا ہے، ان کو معطل بھی کیا جا سکتا ہے مگر یہ سب کرنے کے بعد آج کی ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ عالمی برادری میں ہماری حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟یہ وہ اہم سوال ہے جس کے جواب میں ترقی یافتہ و مہذب قومیں اپنے ملکی آئین کی تکریم کرتے ہوئے عالمی برادری میں اپنا مقام بلند کرتی ہیںاور وہ قومیں جو اپنے آئین یا عمرانی معاہدوں کی تکریم نہیں کرتی، آئین کو فقط دو صفحوں کی کتاب سمجھتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں، ان قوموں کا مقام کیا ہوتا ہے؟یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ تمام پاکستانی اس صورت حال سے بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان کے اس ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا اعادہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں میثاق جمہوریت کو تیسری مقدس دستاویز کا مرتبہ حاصل ہوا مگر افسوس کہ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ، اپنی جلا وطنی ختم کرنے سے قبل مفاہمت کتاب لکھ کر اپنے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کا اظہار کر چکی تھی اور یہ نظر آ رہا تھا کہ محترمہ اقتدار میں آنے کے بعد پرانی عداوتوں او رنجشوں کو بھلا کر نئے سرے سے ملکی سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گی۔ لیکن افسوس کہ انہیں زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ اپنی نئی سیاسی پالیسی کوعملی جامہ نہ پہنا سکیں۔
میثاق جمہوریت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نے کچھ عرصہ تو اس کی پابندی کی مگر وسیع تر عوامی مفادات اور عوام میں پذیرائی کی خاطر میثاق جمہوریت سے الگ ہو گئی مگر ابھی تک اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میثاق جمہوریت کی تمام شقوں پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہ ہوا اور نہ ہی ممکن ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات میں میثاق جمہوریت کی تمام شقوں پر عملدرآمد ممکن نہیں ۔ میثاق جمہوریت کے پیچھے جھانکیں تو ہمیں کچھ ایسی طاقتیں بھی نظر آئیں گی جنہوں نے اس میثاق جمہوریت کو ممکن بنانے کے لئے ضامن کا کردار ادا کیا تھا اور آج بھی وہ طاقتیں مختلف حوالوں سے پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔میثاق جمہوریت کی دستاویز آج ایک ایسی دستاویز محسوس ہوتی ہے جس میں تقریباً ہر سیاسی جماعت کا ایک مخصوص کردار پہلے سے طے شدہ ہے اور اگر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے دئیے گئے کردار سے انحراف کرتی ہے تو وہ اقتدار کے ایوانوں سے باہر پھینک دی جائے گی، راندہ درگاہ بنا دی جائے گی۔ جس کا پہلا عملی مظاہر ہ محترمہ نے وطن واپسی پر کیا ، اپنے پرجوش استقبال نے محترمہ کو یہ احساس دلا یا کہ وہ آج بھی ملک کی مقبول ترین رہنما ہیںاور تب سانحہ کارساز کے بعدمحترمہ کا لب و لہجہ تبدیل ہونے لگا، اور محترمہ نے اپنے کردار سے باہر نکلنا شروع کیا تو انہیں منظر سے ہٹا دیا گیا۔ یہی عمل میاں صاحب نے بھی دہرایا مگر قدرے تاخیر سے ،جب سیاسی موسم بہتر ہو چکا تھا لیکن وہ بھی طے شدہ کردار سے باہر نکل گئے اور اس کے ساتھ ہی اقتدار کے ایوانوں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا۔
میثاق جمہوریت کے مطابق اقتدار کے ایوانوں میں تقریباً سبھی قابل ذکر سیاسی قوتوں کو شامل ہونا تھامرکز میں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن، مولانا فضل الرحمن،ایم کیوایم، مسلم لیگ اور اے این پی کو مل کر ملک کو چلانا تھا تا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہر طبقہ فکر کی حمایت کو یقینی بنایا جاتا۔ اقتدار کی یہ گاڑی کچھ عرصہ بہت خوبصورتی سے چلی بھی لیکن پھر سب سے پہلے مسلم لیگ ن اقتدار سے الگ ہوئی اور اس کے بعد مولانا فضل الرحمن حکومت سے الگ ہوئے۔ ایم کیو ایم وہ سیاسی جماعت ہے جو مسلسل حکومت او ر اپوزیشن میں جلوہ افروز ہوتی رہی ہے اور اس وقت بھی حکومت میں شامل ہونے کی تیاریوں میں ہے۔ اس اتحاد کے پیچھے کون سی طاقتیں ہے وہ بھی اب سامنے آ رہی ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز پر برطانوں سفارت کاروں کی کوششیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ملکی سیاسی تاریخ اور ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ میں ایسے کبھی نہیں ہوا کہ اتنی بار حکومت سے الگ ہونے کے بعد پھر حکومت میں شامل ہو جائے۔ عموماً ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدگی کا مطلب یہی لیا جاتا رہا کہ اب حکومت کے دن گنے گئے لیکن اس حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے یا ایم کیو ایم کی مجبوری، اس کو جو بھی نام دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف یہ دونوں جماعتیں بلکہ باقی سب جماعتیں بھی خود کو مجبور پاتی ہے اور کسی بھی صورت اس سکرپٹ سے باہر نہیں نکل پا رہی، جو لکھا جا چکا ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری بھی اپنے مزاج کے بر عکس مسلسل ایم کیو ایم اور دوسرے اتحادیوں کو منانے میں مصروف ہیں اور اس کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی مفاہمتی پالیسی کانام دیتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم واشگاف الفاظ میں کہہ رہی ہے کہ اس کے قومی سطح کی پرواز کے پر کاٹے جا رہے ہیں، دوسری طرف کراچی میں امن وامان کی حالت مسلسل دگرگوں ہوتی جا رہی ہے، اس کے باوجود وہ کیا چیز ہے جو ایم کیو ایم کو سخت ترین مو ¿قف اختیار کرنے کے باوجود حکومت کا حصہ رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ق ،جو کل تک قاتل لیگ تھی ، اس سکرپٹ کی بدولت آج حکومت کا حصہ بننے پر مجبور ہے اور اس کی حقیقت وہی سکرپٹ والی ہے کہ جیسے ہی یہ ”سیاسی اداکار“ اپنے کردار سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے، سب کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ غیر جمہوری مزاج رکھنے والی جماعتیں(گو کہ سب ہی جمہوریت کا نعرہ لگاتی ہیںمگر ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں )اور سب کی دال غیر جمہوری نظام میں زیادہ گلتی ہے لہذا اس وقت بھی وہ غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور مسلسل ان طاقتوں کو دعوت دے رہے ہیں مگر نہ صرف وہ طاقتیں بلکہ میثاق جمہوریت کے ضامن بھی اس انتظام کے لئے تیار نہیں اور یہ ہی ثمرات ہیں میثاق جمہوریت کے کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی ابھی تک چل رہی ہے۔
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved