اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت15-01-2009

حق یا سازش

کالم:۔ محمد مبشر انوار


پاکستان پیپلز پارٹی ابھی تک اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تاثر کو ختم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ‘گو کہ پچھلی چار دہائیوں میں چار مرتبہ حکومت بھی کر چکی ہے مگر افسوس کہ ہر مرتبہ اس کو وقت سے پہلے ہی مختلف الزامات کے تحت حکومت سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور جبراً گھر بھیج دیا جاتا ہے۔2008کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست کانعرہ لگا کر میدان میں اتری اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پچھلی غلطیوں کی تلافی ممکن ہو سکے گی۔ ابتداءمیں خیر سگالی کی یہ فضا بنی بھی جب دونوں بڑی جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی اور رواداری و برداشت کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ عوام بھی اس صورتحال سے خوش نظر آنے لگے کہ ملکی سیاسی قیادت زیادہ بردبار اور بالغ نظر ہو گئی ہے اور اس طرح مل کر دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کو در پیش مسائل سے بخوبی نکال لیں گی مگر افسوس کہ حکومت میں رہتے ہوئے پیپلز پارٹی کو زیادہ فہم وفراست کا مظاہر ہ کرنا چاہئے تھا لیکن صدر زرداری کے چند غیر ذمہ دارانہ بیانات نے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں اتحاد کے راستے الگ کر دئیے۔جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا پھر بھی امید تھی کہ دونوں جماعتیں جمہوری انداز کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘جمہوریت کو چلنے میں مدد دیں گی اور اپوزیشن کی حیثیت میں بھی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کیا جائے گا۔ جس کے بلند وبانگ دعوے اور وعدے بھی کئے گئے لیکن یہ دعوے اور وعدے ایک مخصوص طبقہ فکر کے حوالے تک ہی محدود تھے اور ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے دوسرے ذرائع (آئینی و معاشی و امن و عامہ) ان وعدے وعیدوں سے مبرا ہیں ‘ جو بنیادی طور پر اپوزیشن کا حق بھی ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھے اور جہاں اس کو کوئی کمزور پہلو دکھائی دے اس پر وار کرنے سے نہ چوکے‘ اور یہی کچھ گذشتہ دو سالوں میں ہوا ہے۔ مسئلہ خواہ ججز کی بحالی کا رہا ہو یا بجلی کے بحران کا‘ آٹے کی کمیابی ہو یا چینی نا پید‘ پٹرول و گیس کی قلت رہی ہو یا کچھ بھی‘ سب حقائق کو نظر انداز کر کے حکومت کو مدافعانہ رویہ اختیا ر کرنے پر مجبور کیا گیا۔یہاں میثاق جمہوریت کا پرچار انتہائی اونچے سروں میں کیا جاتا رہا مگر در پردہ اپوزیشن کے اہم رہنما نیسری قوت سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔
راقم نے اپنی پچھلی تحریر میں لکھا تھا کہ اپوزیشن لیڈر بے شک بآواز بلند حکومت کو غیر مستحکم نہ کرنے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن یہ دعوے اس وقت تک ہی عوام سنیں گے جب تک آئین میں سترھویں ترمیم کو ختم نہیں کیا جاتا اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم کی شق کو آئین سے نکال نہیں دیا جاتا‘ اس کے بعد چھوٹی جماعتیں (جو گذشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے آج باہر بیٹھی ہیں)وسط مدتی انتخاب کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر آئیں گی اور اپوزیشن لیڈر ان کے ہمنوا بن کر وسط مدتی انتخاب کی تحریک کا حصہ بن جائیں گے۔ اس وقت صورتحال اس سے بھی دور نکل چکی ہے۔ ایوان صدر پر سنگ باری میں شدت آچکی ہے اور ایوان صدر سے جوابی حملے بھی شروع ہو چکے ہیں۔ صدر صاحب خود اپنے خطابات میں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ذکر کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا سامنا کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان سازشوں کے حوالوں سے جناب صدر کے اشارے کسی اور جانب دکھائی دیتے ہیں تو ایوان صدر کے ترجمان اور وفاقی وزراءو پارٹی رہنما ان کے خطاب میں اشاروں کودوسری سمت دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود بھی واضح نہیں یا پھر خود ابہام رکھتے ہوئے اپنی گراو ¿نڈ مضبوط بنانا چاہتی ہے تا کہ ایسی کسی بھی سازش کا مناسب توڑ کر سکے۔ اس ضمن میں صدر مملکت نے تین صوبائی اسمبلیوں سے ‘جہاں ان کی جماعت اتحادی ہے‘اپنے حق میں قراردادیں بھی منظور کروا چکے ہیںلیکن پنجاب اسمبلی سے ابھی تک ایسی کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اتحادی ہونے کے باوجود پنجاب اسمبلی ان کے حق میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں کرے گی۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اتحادی جماعتوں کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا کہ اگر آنے والے وقت میں وفاقی حکومت پر اگر برا وقت آیا تو اس کی چند اتحادی جماعتیں ‘ اس کا ساتھ چھوڑ کر کسی اور آشیانے پر بسیرا کرنے کو ترجیح دیں گی۔ درحقیقت ایسی جماعتوں کی وفاداری ان سے رہتی ہے ‘جو ان کی شرکت اقتدار کو یقینی بنائیں لہذا کسی بھی مشکل وقت سے پیشتر (زیادہ موزوں مشکل وقت لانے کے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں)ہی ایسے مطالبات اور بیانات تواتر سے آنا شروع ہو جاتے ہیں ‘ جس سے یہ واضح ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ در پردہ کہیں نہ کہیں کچھ اشارے مل رہے ہیں اور وفاداریاں نبھانے کا وقت آن پہنچا ‘جن کے اشاروں پر حکومت کا ساتھ دیا جارہا تھا‘وہاں سے ہاتھ کھینچنے کا حکم موصول ہو چکا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقتی طور پر حالات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تو گلے شکوے دور کر کے دوبارہ ساتھ دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں‘ اس وقت تک جب تک دوبارہ ہلچل پیدا کرنے کے احکامات موصول نہ ہو جائیں۔
حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے غیر مستحکم نہ کرنے کے دعوو ¿ں میں صداقت دکھائی دیتی ہے لیکن ممکن ہے حکومت ان دعوو ¿ں کو جمہوری طور طریقوں پر بھی لاگو کر رہی ہوکہ اس مرتبہ اپوزیشن پیپلز پارٹی کو کسی بھی طور اپنی مدت پوری کر لینے دے اگر حکومت اپوزیشن کے دعوو ¿ں کو اس زاویے سے دیکھ رہی ہے(جو امید ہے کہ میری ہی غلط فہمی ہو گی)تو اس سادگی پہ کون ہے جو نہ مرجائے۔حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اپوزیشن نے یہ رعایت اسے صرف غیر جمہوری طریقوں سے بچاو ¿ کی حد تک دے رکھی ہے۔ حکومتی غلطیوں کو عوام کے سامنے لانا ‘ اور اپنے اقتدار کے لئے راہ ہموار کرنااپوزیشن کا بنیادی حق ہے اور حکومت کو حق اور سازش میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ‘ میثاق جمہوریت کا ذکر کرنے والوں کو بھی اس کا پاس کرنا ہو گا۔

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team