اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت18-01-2009

امتیازی قانون

کالم:۔ محمد مبشر انوار



بالعموم دیکھا گیا ہے کہ امتیازی لوگوں کے ساتھ امتیازی برتاو ¿ ہوتا چلا آیا ہے اور اکثر امتیازی لوگ اپنے ساتھ اس سلوک کو بھی اپنی عزت افزائی کے مترداف سمجھتے ہیںاور ا س کا برملا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ ہر شخص کے معیار اور رویے کے مطابق یہ امتیازی سلوک بھی مختلف ہو تا ہے مثلاً ایک طالبعلم کے نزدیک اس کے کسی استاد کی خصوصی شفقت و نظر اس کے لئے باعث فخر و امتیاز ہوتی ہے تو ایک گمراہ شخص کے لئے علاقے کے نامی گرامی بدمعاش کا خصوصی برتاو ¿ اس کے لئے باعث فخر و قربت کا اظہار ہوتا ہے۔ریاست پاکستان اپنے قیام سے ہی ہمہ پہلو ایک امتیازی ریاست کا درجہ رکھتی ہے اور مختلف اوقات میں اس کے امتیازی حکمرانوں نے اس ریاست کے ساتھ بلا واسطہ اور بالواسطہ کیسے کیسے امتیازی سلوک روا رکھے ہیں اگر ان کی ایک جھلک دیکھی جائے تو اس مقولے پر ایمان لانے کو دل کرتا ہے کہ یہ خداداد ریاست حقیقتاً خدا کے آسرے ہی چل رہی ہے۔ریاست پاکستان کا قیام بذات خود ایک امتیاز ہے جو بابائے قوم کی مرہون منت ہے وگرنہ کہاں مکار ہندو بنیا(جو اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتا تھا‘اور رکھتا ہے)اور کہاں چالباز انگریز جو تقسیم کر کے حکومت کرنے کا قائل تھااور سونے کی چڑیا بر صغیر کو کسی صورت ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتا تھا‘مگر قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں‘سو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قیام کے بعد یہ امتیاز کیا کم تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں ‘جہاں ببول کے کانٹوں کو پنوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا‘ اس ریاست نے اپنے قدم جمانے شروع کئے اور انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود اپنی ساکھ قائم کرنا شروع کی۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس نو مولودریاست میں اسلامی روایات کی تجربہ گاہ بننے کی بجائے ان روایات کی پامالی اس ریاست کا ایک اور امتیاز رہا کہ ایک دوسرے کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ اور دبانے کے پالیسی اختیار کی گئی‘ اکثریت کو اقلیت بنانے کے شعوری کوشش کی گئی ‘ تحریک پاکستان کی بنیاد رکھنے والے بنگالیوں کو جبراً اقتدار سے دور رکھ کر ان کے حقوق کو پامال کیاگیا۔ جمہوری طور طریقوں سے وجود میں آنے والی ریاست میں غیر جمہوری طور طریقے اور محلاتی سازشوں کو پروان چڑھایا گیا۔منتخب نمائندوں کو سر عام قتل اور پھانسی گھاٹوں پر لٹکایا گیا۔ہمارے امتیاز کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہم نے سیاست کے میدان کے علاوہ بھی کئی دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں منفی امتیاز کو بتدریج فروغ دیا۔ باقی ماندہ ریاست پاکستان میں بھی منتخب نمائندوں کے حق حکمرانی میں بلا جواز روڑے اٹکائے اور فوج کے غیر آئینی اقتدار کے لئے غیر منطقی جواز گھڑے۔دور اندیشی کی صفت سے محروم اور اقتدار کے رسیا و ¿ں نے فقط اقتدار کی خاطر غیر ملکی آقاو ¿ں کے جنبش ابرو پر ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت و سماج کو بھی روندنے سے گریز نہ کیا۔
یہ تو وہ مختصر سی امتیازی تاریخ ہے جو روس کے افغانستان پر جارحیت سے قبل کی ہے اور روس کی جارحیت کے بعد کی امتیازی تاریخ اس سے کہیں بد تر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افواج پاکستان نے روس کے خلاف ایک کامیاب پراکسی وار لڑی ‘جس کے نتیجے میں نہ صرف روس کی معیشت زوال پذیر ہوئی بلکہ خود یہ فیڈریشن بھی حصے بخروں میں تقسیم ہو گئی لیکن اس کی قیمت پاکستان کو کیا چکانا پڑی؟ اس وقت بھی پاکستان عالمی سطح پر ایک امتیازی حیثیت رکھتا تھا اور اپنی اسی امتیازی حیثیت کے برتے پر امریکیوں کی ناک کا بال بنا ہوا تھا لیکن اس کا مقصد فقط روس کو شکست و ریخ سے دوچار کرنے تک ہی محدود رہا اور آج یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ امریکہ نے اپنا مقصد نکل جانے کے بعد ایک امتیازی ریاست اور فرنٹ لائن سٹیٹ کے ساتھ کیا سلوک کیاتھا؟روس کی شکست و ریخ کے بعد فرنٹ لائن سٹیٹ کو ایسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا کہ اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا‘کل تک فرنٹ لائن سٹیٹ پر واری صدقے جانے والی عالمی برادری اور اکلوتے ٹھیکیدار نے اپنی چہیتی ریاست کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کر دی‘ روس کے خلاف برسر پیکار رہنے کی وجہ سے ریاست پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام پر حاصل رہنے والا امتیاز بھی ختم ہو گیا۔ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کے ساتھ یہ ”امتیازی رویہ“ اختیار کیا گیا تو دوسری طرف اندرون پاکستان افغان مہاجرین کو ایسی بد نظمی کے ساتھ پناہ مہیا کی گئی کہ وہ نہ صرف پورے ملک میں پھیل گئے بلکہ ہر طرح کے جرائم میں بھی ملوث ہو گئے۔ ہیرو ¿ین کلچر‘ کلاشنکزف کلچر ‘بردہ فروشی اور بم دھماکے بھی انہی کے مرہون منت رہے۔ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے ایک اور امتیازی وار کیا گیا اور اس ملک میں بسنے و الوں کو پاکستانیت کی بجائے لسانی گروہوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا گیا۔
اتنے امتیازات کے باوجود عالمی برادری اس ریاست کی امتیازی حیثیت سے مطمئن نہ ہوئی اور ایک بار پھر افغانستان کو فتح کرنے کی ٹھانی۔ امتیازی ریاست کا قرعہ فال ایک مرتبہ پھر پاکستان کے نام نکلا کہ یہ و ہ واحد ریاست ہے جو اس خطے میں اپنی انتہائی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتی ہے۔ افغانستان کو زیر کرتے کرتے جو امتیاز اس ریاست کے ساتھ روا رکھنا باقی بچا تھا‘وہ بھی اس کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور اس پر امتیازات کی ایسی بارش برسائی گئی کہ کل تک دہشت گردی کی جس جنگ کے خلاف یہ ریاست فرنٹ لائن سٹیٹ کا درجہ رکھتی تھی‘ آج وہی دہشت گردی اس کے اپنے آنگن میں اسی کے دامن کو خاکستر کر رہی ہے۔ پاکستان اپنی مقدور بھر کوشش کر رہا ہے کہ اپنے دامن کو اس آگ سے خاکستر ہونے سے بچائے لیکن امتیازات کی نوازشات اس قدر ہیں کہ یہ آگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کی تپش اب ملک کے دوسرے حصوں میں بھی محسوس ہو رہی ہے۔لیکن امتیازات کی بارش ابھی تک ختم نہیں ہوئی ‘ امتیازی ریاست کو آگ میںجھلسا کر ‘ اس کے باسیوں کے ساتھ ایک اور امتیاز بخشا گیا ہے کہ اب اس ریاست کے ہر شہری(خواص و عام) کو عالمی ٹھیکیدا رکی سر زمین پر اترتے ہی جامہ تلاشی دینی ہو گی۔ کیوں نہ ہو کہ ہم امتیازی ریاست کے امتیازی باشندے ہیں اور جب ہمارے اپنے ملک میں کوئی قانون نہیں ہو گا تو پھر باقی دنیا تو ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہی برتے گی!!!
 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team