اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت25-01-2009

ججز کی تقرری

کالم:۔ محمد مبشر انوار


آئین کے مطابق یہ انتظامیہ کا استحقاق ہے کہ وہ عوام کے مسائل و قانونی تنازعات کے حل کے لئے عدلیہ میں منصفوں کا تقرر کر ے تا کہ عوام کی داد رسی ممکن ہو سکے اور قانون کی پاسداری قائم رہے جبکہ ججز کی تقرری میں اعلی عدلیہ کا یہ کردار ہے کہ وہ انتظامیہ کو ایسے قابل افراد کی فہرست مہیا کرے جن میں انتظامیہ نئے ججز کی تقرری کرے تا کہ انصاف کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہے۔ وطن عزیز کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے افراد کو مضبوط بنایا گیا ہے جس کا اثر برارہ راست کارکردگی پر پڑا اور اداروں میں میرٹ کی بجائے اقربا پروری گھر کر گئی۔دیگر اداروں کی طرح عدلیہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوئی اور اس کے اراکین بھی بھیڑ چال میں اپنی اہمیت و افادیت کو قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ایک عرصے تک ملک میں مارشل لاءکی وجہ سے عدلیہ آمروں کے گھروں کی لونڈی جیسا کردار ادا کرتی رہی تآنکہ موجودہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے نہ صرف آمروں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ ماضی کے بر عکس اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر نکل آئے۔ماضی میں اگر عدلیہ کے کردار کی بات کریں تو بارہا ایسے مواقع سامنے آئے جب عدلیہ کے منصف انصاف کے ترازو میں توازن قائم نہ رکھ سکے اور عدلیہ کے ماتھے کوجانبداری کے کلنک سے داغدار کرتے رہے۔
اقتدار پرستوں نے فقط اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر ایسے ایسے نا اہلوں کو اعلی عہدوں پر فائز کیا جو فقط ان کے احکامات کی پیروی آنکھیں بند کر کے کرتے رہے اور ادارے تطہیر اور میرٹ کے اصولوں سے ہٹ کر مسلسل روبہ زوال ہوتے گئے۔پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب عدلیہ میں بھی پی سی او کے تحت ججز نے حلف اٹھایا اور فقط اپنی نوکری اور ما بعد مفادات کی خاطر اس حلف کے تحت اپنے مربی و آقا کو بے شمار خدمات پیش کی ،جن کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ ماضی قریب میں جھانک کر دیکھیں تو ستر کی دہائی میں ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف عدلیہ میں قتل کا مقدمہ زیر بحث تھا ‘ اس میں منصفوں کا کردار روز اول سے ہی عیاں تھا اور مقدمے کی پیروی کے دوران واضح محسوس ہو رہا تھا کہ منصف غیر جانبدار نہیں، اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اس مقدمے کی پیروی کلیتاً قانون کے مطابق کی۔ مراد یہ کہ منصفوں کا مقدمے میں خود فریق بن جانے کے باوجود بھٹو مرحوم نے عدلیہ کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ان اداروں سے منصفی چاہی مگر افسوس کہ تب کے منصف اپنی رنجشوں ،ذاتی مفادات اور غیرجانبداری سے اوپر نہ اٹھ سکے اور ایک ایسا فیصلہ دیا ، جو آج ایک عدالتی نظیر کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ اسی دوران جنرل ضیا نے ایسے ایسے افراد کو اس ادارے میں بھرتی کیا، جو نہ صرف اپنے شعبے میں مہارت رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی ہمدردیاں صرف ضیاءاور اس کے حامیوں کے ساتھ تھی جبکہ ان کے دلوں میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لئے شدید ترین کدورت ‘ بغض بھی بایا جاتا تھا۔ جس کا عملی مظاہرہ بھی بارہا ہوا جس کی ایک مثال سابق جسٹس ملک محمد قیوم کی ہے کہ کس طرح انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت میں کن مفادات کے عوض شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف فیصلے دئیے۔جناب میاں نوازشریف کا تذکرہ ہوا ہے تو یہاں یہ حقیقت بھی بر محل ہو گی کہ میاں نواز شریف نے اسی روش کو آگے بڑھایا اور عدلیہ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے اپنی ہی جماعت کے افراد کو اعلی عدالتوں میں تعینات کیا تا کہ ان کی حکومت کو عدلیہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو بلکہ وقت آنے پر عدلیہ ان کے مفادات کا بھی تحفظ کرے۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو بھی عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور چشم فلک نے پھر دیکھا کہ شہید محترمہ بے نظیر نے اپنے باپ کی طرح ہی ان عدالتوں کا سامنا کیا ،بعینہ ویسے ہی جیسے ان کے والد کو عدلیہ کی غیر جانبداری پر اعتماد نہ تھا مگر وہ پھر بھی بہ حیثیت ادارہ اس کی تکریم کرتے رہے۔البتہ افسوس اس بات پر ہمیشہ رہے گا کہ قانون کی حکمرانی کے دعوے کرنے والی بے نظیر نے بھی اپنے دور حکومت میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے میرٹ سے ہٹ کر فقط جیالوں کو جج مقرر کرنا چاہا یہ الگ بات کہ وہ اپنے اس عزم میں کامیاب نہ ہو سکیں اور عدلیہ میں جیالے ججز مستقل نہ ہو سکے۔ لیکن دوسری طرف دوسری بڑی جماعت کے سربراہ جناب میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے عدلیہ کے ساتھ کیا کیا؟ یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا، ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا اور اس کے پیچھے کیا کیا محرکات رہے۔ حال ہی میں نا اہلی کے مقدمات پر کس طرح عدلیہ کا بائیکاٹ کیا گیا تا وقتیکہ افتخار محمد چوہدری بحال نہیں ہو گئے اور آئین و قانون کے مطابق ہی سہی میاں برادران کو اہل قرار دے دیا گیا۔
آج پھر پنجاب حکومت کو ججز کی تقرری کا مسئلہ در پیش ہے او رگورنر پنجاب اس اہم مسئلے کو فقط اس لئے دبائے بیٹھے ہیں کہ نامزد کردہ ججز میں سے اکثریت کا تعلق ان کی مخاف جماعت سے ہے یا وہ نئے ججز کی تعیناتی سے قبل کچھ سودے بازی کے موڈ میں ہیں۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو نقصان عوام کا ہو رہا ہے کہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات زیر التواءہیں اور منصفوں کی تعداد مقابلتاً نہایت کم ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری عدلیہ میں تبدیلی کا عزم لے کر آئے ہیں اور عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات بھی ہیں۔ ہم بھی یہ امید کرتے ہیں کہ جناب چیف جسٹس عدلیہ کی تطہیر کرتے ہوئے اس امر کو بھی ملحوظ رکھیں گے کہ منصفی کے لئے ایسے افراد کا تعین کیا جائے جو منصب منصف پر بیٹھ کر انصاف کے ترازو کو جھکنے نہ دیںاور ماضی کی روش کے بر عکس نئی تقرریوں میں اقربا پروری کا عنصر نہ ہو بلکہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اہل افرادہی اس منصب پر فائز کئے جائیں ،تا کہ انصاف کرتے وقت ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ ہو۔
 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team