اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت08-02-2010

انصاف اور مرچیں

کالم:۔ محمد مبشر انوار


عدالتیں قائم کرنے کا مقصد عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے اور ماضی قریب میں پاکستانی عدالتوں کو یہ فرض بخوبی اداکرنے کے لئے وکلا،میڈیا،سیاستدانوں اور سول سوسائٹی نے بے مثال تحریک چلائی تا کہ پاکستانی عدالتیں سیاسی دباو ¿ سے ”آزاد“ ہو کر صرف قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائیں۔ عدالتیں اس مقصد میں کس حد تک اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی بہتر طور پر کر سکے گا مگر ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر فی الوقت عدالتیں کاضی کی نسبت قدرے بہتر انداز میں کام کر رہی ہیں رہی بات ان کی جانبداری کی یا فقط ایک فرد یا گروہ کے متعلق مخصوص رویے کی تو فی الوفت یہ موضوع زیر بحث نہیں کہ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی مزید بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر عدالتوں کا رویہ یہی رہا تو وہ آزادی جس کے لئے بے پناہ جدوجہد کی گئی تھی وہ بے ثمر رہے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ معکوس بھی ہو جائے۔ اس وقت عدلیہ کو ایک او ر اہم معاملہ در پیش ہے، جس میں پنجاب کے چیف سیکرٹری کی گاڑی کی ٹکر سے ایک شہری(ر کرنل اکرام) جاں بحق ہو گئے ہیں، ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ مقدمے کے قانونی پہلویقینی طور پر تفتیش کے بعد ہی سامنے آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عدالت کو ان حالات پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ یہ حادثہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟ اور مستقبل میں ایسے حادثات کو روکنے کے لئے عدلیہ کیا طریقہ کار وضع کر سکے گی،آیا ان حالات کو روکنے کے لئے عدلیہ کے پاس اختیار بھی ہے یا نہیں؟یہ سب سوالات جلد ہی عدالت کے سامنے اٹھنے والے ہیں۔ حادثے کی وجہ (اخباری اطلاعات کے مطابق)یہ بیان کی جا رہی ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب وزیر اعظم کے پروٹوکول کی خاطر جلدی میں تھے اور اس ضمن میںڈرائیور نے اشارے کی خلاف ورزی(اخبار بیان کے مطابق) کی اور گاڑی کی ٹکر (ر) کرنل اکرام سے ہوئی ، اور (ر)کرنل اکرام زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسے جبکہ چیف سیکرٹری صاحب گاڑی بدل کر اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے روانہ ہو گئے۔سوال یہ ہے کہ صدر،وزیر اعظم‘وزراءاعلی اور دیگر اعلی حکومتی و اپوزیشن ارکان کے لئے ایسے پروٹوکول کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟اگر نگران وزیر اعظم مرحوم ملک معراج خالد بغیر پروٹو کول کے سفر کر سکتے ہیں تو کیا ہمارے آج کے حکمران اس نمودو نمائش سے پر ہیز نہیں کر سکتے؟یا کیا اعلی عدالتیں اس عمل کو غیر قانونی قرار نہیں دے سکتی؟بظاہر (میری ذاتی رائے میں)اس مسئلے کو بھی افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے گااور عین ممکن ہے کہ متوفی ر کرنل اکرام کے پسماندگان چیف سیکرٹری صاحب کو معاف بھی کر دیں مگر ان حالات کے متعلق بحث ضرور ہونی چاہئے جس کی وجہ سے ایسے حادثات رو پذیر ہوتے ہیں ،یعنی نمودو نمائش والا پروٹوکول،جو عام شہریوں کے لئے وبال جان ہے۔
مرچوں کے حوالے سے ذہن ماضی کے دریچوںکو وا کر دیتا ہے اور لڑکپن کے اس کھلنڈرے دور میں لے جاتا ہے جب شرارتیں کرنا ، کسی کو بے ضرر انداز میں تنگ کرنا جوانی میں داخل ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ ہائی سکول کے دور میں کراچی سے تعلق رکھنے والا شخص سکول کے احاطے میں بوقت بریک حلیم کی ایک چھوٹی سی دیگ کے ساتھ جلوہ افروز ہوا کرتا تھا ۔ بے شک اس کی حلیم بہت ہی مزیدار ہوا کرتی تھی اور سکول کے اکثر طلباءاس کے گرد جمع ہو جاتے اور وہ شور اٹھتا کہ اکثر وہ بے چارہ زچ ہو جایا کرتا مگر روز معاش کی خاطر پھر اگلے دن اسی جگہ پر بیٹھا حلیم بیچ رہا ہوتا۔عموماً ہوتا یہ تھا کہ طلباءکے پاس پیسے کم ہوتے اور فقط نان کی قیمت ادا کر کے نان پر حلیم کے چمچے کی چھینٹ سے پورا نان کھانا پڑتا۔ اس تکلیف دہ امر سے بچنے کی خاطر یا زیادہ آسودگی سے نان کھانے کی خاطر اکثر طلباءاردو تلفظ میں پکارتے ،ارے بھیا تھوڑا حلیم تو لگائیو چمچے پراور یہی وہ وقت ہوتا جب بھیا کا صبر ہاتھ سے چھوٹ جاتا اور وہ غصے میں بعض اوقات ایک آدھ گالی بھی نکال دیتا اور کہتا ابے مرچیں لی آ اور میری آنکھوں میں ڈال کر حلیم خود ہی ڈال لے۔ مجھے یہ واقع میاں نواز شریف صاحب کے حالیہ بیان کے بعد یاد آیا اور ذہن میں چپک سا گیا، میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر ان پر کرپشن کے الزامات ہوتے تو وہ حکومتی عہدیدار ہونے کے باوجود بھی عدالت سے کلیم چٹ یعنی بریت حاصل کرنے کے لئے خود کو پیش کر دیتے ۔ زبان و بیان کی حد تک یہ بیان یقینی طور پر خوش کن اور مسحور کن ہے مگر عملاً اس کی نفی ہی ہو رہی ہے ۔ اس کا حوالہ یوں دیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ایک منتخب وزیر اعظم نے عدم اعتماد اور واضح جانبداری کے باوجود فقط عدالتوں کا وقار برقرار رکھنے کے لئے اور بہ حیثیت ادارہ ان کی تکریم کی خاطر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا بھر پور عدالتی کارروائی سے کیا ،قانونی موشگافیوں اور پیچیدگیوںسے اپنا مقدمہ جیتنے کی کوشش کی مگر اسے تختہ دار تک چڑھایا گیا۔ اسی طرح میاں صاحب کے دور میں ہی شہید محترمہ بے نظیر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف بے بنیاد انتقامی مقدمات کی بھرمار کی گئی(جس کو بعد ازاں میثاق جمہوریت میں تسلیم کیا گیا)اور انہی مقدمات کی پیروی میں شہید محترمہ اور ان کے شوہر ایک سے دوسری عدالت میں دھکے کھاتے رہے جبکہ زرداری تقریباً 11سال تک پابند سلاسل رہے۔ جبکہ میاں صاحب نے خود اداروں کی کیا درگت بنائی؟سپریم کورٹ پر حملہ ان کو عدالت میں طلب کئے جانے پر ہوا،متوازی اعلی عدلیہ کا قیام بھی انہی کے ذہن نا رسا سے ابھرا ،اور اب بھی نا اہلیت کے حوالے سے سپریم کورٹ کی کتنی تکریم کی گئی ،وہ بھی ساری عوام جانتی ہے مگر افسوس کہ عوام آج بھی شخصیت پرستی کے تاثر سے باہر نہیں نکلی اور میاں صاحب انہی انتقامی مقدمات کے حوالے سے پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ صدر زرداری کو خود کو عدالتوں کے سامنے پیش کر دینا چاہئے۔ میاں صاحب کے اس بیان پر مجھے بار بار بھیا کی کہاوت یاد آرہی ہے ،ابے جا جا کر مرچیں لی آ !!!

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team