اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت16-02-2010

کراچی اور امن

کالم:۔ محمد مبشر انوار

کراچی ایک بار پھر خبروں کا مرکز بن چکا ہے ،عاشورہ کے دن سے ہونے والے بم دھماکوں کے باز گشت ایک تسلسل کے ساتھ سنائی دے رہی ہے اور ا س کے نتیجے میں نہ صرف قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ ملکی امن وامان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے۔ حیرت اس امر کی ہے کہ اس وقت حکومت میں وہ تین فریق (حصہ بقدر جثہ)موجود ہیں جن کی مسلمہ اکثریت ہے اس کے باوجود شر پسند عناصر اپنے مذموم مقاصدمیں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے کاسمو پولیٹن شہر میں ایک طرف پیپلز پارٹی ہے،دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ ہے تو تیسری طرف پختون اور یہ تینوں دھڑے عوام میں اپنا بھر پور اثر رکھتے ہیں، ان کی موجودگی میں اگر کو ئی چوتھی طاقت ابھر رہی ہے(جس کا دعوی کیا جا رہا ہے،شک کیا جا رہا ہے) تو پھر ان قوتوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کی حکمت عملی میں ایسی کیا خامی ہے کہ کوئی اور طاقت اس قدر بلند آواز میں اپنی موجودگی ثابت کر رہی ہے۔حکمت عملی کے حوالے سے بات بعد میں کروں گا اس سے پہلے حالیہ وارداتوں کے متعلق جو خیالات اور تجزیے ابھی تک منظر عام پر آئیں ہیں ،ان کا ایک طائرانہ جائزہ ضروری سمجھتا ہوں۔ الزامات اور جوابی الزامات کا ایک طومار بندھا ہوا ہے اور ان کی روشنی میں جو آراءابھی تک سامنے آئی ہیں،ان کے مطابق ان جھگڑوںکا تعلق لینڈ مافیا سے جوڑنے کی کوشش بھی ہوئی ہے،ان وارداتوں کو طالبان کے کھاتے میں ڈالنے کی باتیں بھی ہوئی ہیں،کراچی پر ”دوبارہ“قبضے کی باتیں بھی ہو ئی ہیں،بلیک واٹر جیسی تنظیم کو بھی اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،مختلف تجزیہ نگاروں کی طرف سے ایم کیو ایم کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی بھی کوششیں کی گئی ہیں کہ جب بھی جمہوری حکومتیں آتی ہیں،ایم کیوایم حیلے بہانے سے کراچی کے امن کو تباہ کرنے میں ملوث نظر آتی ہے اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایم کیو ایم کو فقط دور آمریت ہی راس آتا ہے جس میں وفاقی سطح کی سیاست شدید دباو ¿ میں رہتی ہے او رایسی تنظیموں کے لئے خلاءکو پر کرنا نہایت آسان ہوتا ہے اور ایسا ماحول ان کی نشو ونما کے لئے بہترین ہوتاہے۔ یہ سب تجزیے اور قیاس آرائیاں اپنی جگہ لیکن حقائق کیا ہیں؟
یہ ایک سر بستہ راز نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو مقامی سیاستدان آپس میں دست و گریباں ہیں تو دوسری طرف سیاسی تنظیمو ں کے اعلی عہدیدار ہر جھگڑے کے بعد تصفیہ کرانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ماضی کی طرف نظر دورائیں تو ایم کیوایم کی تشکیل کا جواز،جو خود ایم کیو ایم آج تک اپنائے ہوئے ہے، اس کے مطابق 80 کی دہائی میں جب اے پی ایم ایس او کا قیام وجود میں آیا تب حالات ایسے تھے کہ کراچی میں ہر طرف اسلامی جمیعت طلبہ کا طوطی بولتا تھا اور کسی بھی دوسرے مکتب فکر کے طلباءکی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تھی ۔ اس پس منظر میں APMSOکا قیام عمل میں لایا گیا اور اسلامی جمیعت طلبہ کا زور توڑنے کے لئے ان سے زیادہ طاقت کا اظہار ہی طلباءکے اس نئے گروہ کی شناخت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوا۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی جمیعت طلباءکی طاقت سے زیادہ طاقت نے اس نئی طلباءتنظیم کو حیات بخشی جو بعد ازاں ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔یہ الگ بحث کے اس نئی سیاسی تنظیم کے اغراض و مقاصد کیا رہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ کہ جاگیردارانہ سیاست کے طور طریقوں میں اس نئی تنظیم نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی اور نچلے طبقے کے پڑھے لکھے ‘قابل اور محنتی طبقے کو اولاً علاقائی اور بعد ازاں ملکی سیاست میں متعارف کرایا۔ نچلے طبقے کی اس نئی قیادت نے کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے ،اس کی فقط ایک مثال موجودہ ناظم کراچی سید مصطفی کمال ہیں ،جنہوں نے دن رات ایک کرکے کراچی کی کھوئی ہوئی رونقیں دوبارہ بحال کرنے کی اپنی بھر پور کوشش کی(یہ سب اخباری اطلاعا ت کے مطابق ہے کہ راقم نے جدید کراچی کو خود نہیں دیکھا لیکن زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو)۔
دیگر کھیلوں کی طرح سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں مگر افسوس کہ پاکستانی سیاست میںاب وہ اصول خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔سیاست اگر خدمت سمجھ کر کی جائے تو تا قیامت اس کے آثار باقی رہتے ہیں اور عوام کے دل و دماغ میں سیاست دان ہمیشہ زندہ جاوید ہو جاتا ہے لیکن اگر سیاست کا مقصد انتقام ہو جائے،اجارہ داری ہو جائے ،جبراً قبضہ ہو جائے، اختلاف رائے قابل گردن زنی ہو جائے،سیاستدانوں کے مابین رواداری و وضع داری عنقا ہو جائے تو سیاست کا حسن ماند پڑجاتا ہے اوراس پر انتقام کا غلبہ محسوس ہونے لگتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی امن و امان کی صورتحال اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک اس کی قوتیں آپس میں روادرای و وضع داری کو فروغ نہیں دیتی،ایثار کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا اور یہ اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک جو زیادہ ذمہ دار ہے وہ ایثار کا مظاہرہ نہیں کرتا اور سیاست کے مروجہ اصولوں کے مطابق آزاد عوامی رائے کو یقینی نہیں بناتا۔ اس ضمن میں اگر کوئی بھی فریق یہ سمجھے کہ وہ بندوق کی نالی کے زور پر کسی بھی علاقے یا وہاں کے لوگوں کو مستقلاًیرغمال بنا لے گا تو یقینی طور پر وہ غلط فہمی کا شکار ہے اور اگر کوئی بھی فریق یہ سمجھتا ہے کہ اقتدار میں آ کر وہ اپنا کھویا ہوا علاقہ جبراً واپس حاصل کر لے گا تو وہ بھی غلطی پر ہے۔ عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کا فقط ایک ہی راستہ ہے کہ ان کو اذہان کو آزاد کردو تا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق اپنے نمائندوں کو چن سکیں، ان کے حقوق ان کو دے دو اور اپنی اجارہ داری کی خاطر ان پر جبر مت کرو اگر کراچی میں امن وامان یقینی بنانا ہے تو اس حقیقت پر عمل درآمد کرنا ناگزیر ہے کہ اس پر عمل کئے بغیر فقط اجارہ داری کی سیاست باقی رہ جائے گی جو کبھی بھی کراچی میں امن کی ضامن نہیں ہو سکتی۔

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team