|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
Telephone:- |
Email:-nazim.rao@gmail.com
|
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔23-05-2011 |
کون بنے
گا بے غیرت پتی‘ |
کالم----------ایم ناظم راوﺅ |
پاکستان میڈیا
میں ایک پروگرام’’کون بنیگا میرا پتی‘‘کے نام
سے شروع ہوا ہے ۔جس میں ایک مشہور فلمی
اداکارہ میرا کے رشتے درکار ہیں۔اس پروگرام کو
جواز فراہم کرنے کیلئے کونسی منطق کواستعمال
کیا گیا اس کو خاص علم نہیں ہوا لیکن اس
پروگرام کو ضرور کامیڈی کا رتبہ دیا گیا ہو گا
لیکن ایسے پروگرام کامیڈی کا حصہ نہیں ہیں ہاں
بدتہذیبی میں ضرور شامل کیا جا سکتا ہی۔اس وقت
ملک میں جہاں معاشی،سیاسی اور معاشرتی خرابیاں
جنم لے چکی ہیں وہاں روزانہ کے معاملات میں
بدتہذیبی بھی فیشن بن چکا ہے ۔ہر بندہ مزاحیہ
تنقید کا عادی بننے کی کوشش کرتا ہے جبکہ کسی
اعلیٰ قوم کو یہ زیبا نہیں ہے کہ گفتگو اور
معاملات میں سنجیدگی کا دامن چھوڑ کر زندگی
گزاری۔ہر کسی کو نیچا دکھانا ،باتوں میں
ذاتیات کو نشانہ بنانا اور جوگت باز کلچر
اختیار کرنے کی کوشش ہمارے مزاجوں میں داخل
ہوتا جا رہا ہے ۔آج کل کی نسل اپنی تہذیب کے
ڈانڈے ہندوستان کی سرزمین میں ڈھونڈ رہی ہے
جبکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہماری تہذیب موہنجو
داڑو،ہڑپہ وغیرہ انڈیا کی قدیم تہذیب سے مختلف
ہی۔ہم محمد بن قاسم ہیں ہندوستان والے راجہ
داہر ہیں ،ہم البیرونی ہیں وہ ایک الجھے ہوئے
فلاسفرز ہیں،ہم کھلے ذہنوں کے مالک وہ تنگ
ذہنیت کے مالک ہیں ۔ان کے مذہب میں ناچنا گانا
ہے اور ہمارے مذہب میں میوزک کی گنجائش کم
ہی۔یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ہر ایشو بھارت
والوں سے ادھار لیں ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت
اور عوامی مزاج کے مطابق خود کامیڈی کے
پروگرام تجویز کرنے چاہئیں ۔آج قوم کو پتی (خاوند)سے
زیادہ سائنس دانوں اور انجینئرز کی ضرورت ہے
کیا وجہ ہے کہ ’کون بنے کا سائنس دان‘یا کون
بنے گا ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘وغیرہ پروگرام
شروع کیوں نہ کیا گئی۔اداکارہ میرا جو کہ صرف
شوخی و بناوٹی کردار اسکو ابھارنے کی کیا
ضرورت تھی؟میڈیا کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے
کہ ہمارے معاشرے میں اداکارائوں کو اتنی اہمیت
اور مقام نہیں دیا جاتا اور میں یہ بھی جانتا
ہوں کہ اس پروگرام میں پتی بننے کیلئے کوئی
شریف خاندان کا فرد نہیں جائے گا اور اگر گیا
بھی تو اس کی شادی بھی نہ ہو سکے گی۔میڈیا اور
انٹریٹمنٹ والے سمجھ لیتے ہیں کہ پیسے کمانے
والے کیلئے کچھ بھی کرو ان کی دھیان کبھی اس
طرف نہیں ہوتا ہے کہ ُانکی ان حرکات سے قوم کا
کیا نقصان ہو رہا ہی۔قوم کی نوجوان آگے بھی
ہندوستان اور مغربی میڈیا کے اسیر ہیں اور اگر
آپ بھی اُن کو مزید غلام بنائیں گے تو اس ذہنی
غلامی سے آزادی کی راہیں مسدود ہو جائیں گی ۔پہلے
بھارتی میڈیا کی وجہ سے ہماری لڑکیاں نے منگل
سوترپہننا اور سیندور لگانا شروع کر دیا
ہی۔ہماری روزمرہ کی زبان میں ہندی الفاظ شامل
ہوتے جا رہے ہیں۔ہر بندہ بھارتی گانے گاتا نظر
آتا ہے ہر لڑکی اپنے بوتیک ڈائزین کو انڈین
فلموں کے مطابق رکھتی ہے ۔گھر گھر میں انڈین
ڈراموں کا رواج جس میں فقط سازشوں کے اور کچھ
نہیں سکھایا جاتا اور مسلمانوں کی تاریخ کو
غلط طور پر پیش کیا جاتا ہے اور سلطان محمود
غزنوی،شہاب الدین غوری جیسے مسلمانوں کو لیٹرے
ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں محمد بن قاسم اور
اول الذکر سلطانوں نے صرف لوٹ مار کی اور
دھرتی ماتا کو تباہ و بردباد کیاان سب کو
اورنگ زیب کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا تو یاد
رہتا ہے مگر اشوک کا نوے بھائیوں کو قتل کر کے
بادشاہ بننا یاد نہیں حیرانی کی بات یہ ہے کہ
کوئی چین یا وسطی ایشیاء سے حملہ کرے تو کوئی
بات نہیں مگر کوئی کلمہ گو اگر حملہ کرے تو
لیٹرا ہی؟
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پے آشیانہ بنے گا ناپائیدارہو گا
۔کیا ہماری تاریخ کو غلط طور پر سمجھایا نہیں
جا رہا ؟اور تاریخ غلط سمجھ میں آئے تو یہ بھی
سمجھ لیں کہ ہم مستقبل بھی نہ بنا سکیں گی۔کیا
ہمارے تہذیبی تشخص کو تباہ نہیں کیا جا رہا ؟اپنی
قوم سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہم اس طرح کامیاب
ہوجائیں؟نہیں ہرگز نہیں ہم اندھے کوئیں میں
چلے جائیں گے جہاں سے کوئی ہمیں نکال نہ سکے
گا۔ہمیں اپنے تاریخی ورثے کو خود سنبھالنا ہو
گا اپنی تہذیبی کے راستے خود تجویز کرنے ہوں
گی!ہمیں اداکار بنانے کی بجائے سائنس
دان،انجینئرز،فلاسفرزاور ایمانداروں کی ضرورت
ہی۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام ِمغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ِہاشمیؐ
اس طرح کے اداکارہ کے خاوند تلاش کرنے کا مطلب
ہے کہ ہم بے غیرت ہوتے جا رہے ہیں کہ اپنی
بہنوں اور بیٹیوں کا تماشہ دیکھتے ہیں تو پھر
اس پروگرام کا نام ’’کون بنے بے غیرت پتی‘‘رکھ
دینا چاہےی۔ |
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|