|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
Telephone:- |
Email:-nazim.rao@gmail.com
|
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔21-07-2011 |
عمران
خان ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتا |
کالم----------ایم ناظم راو |
پاکستان میں
داخلی سیاسی حالات کافی عرصے سے دگرگوں ہیں
دانش ور قسم کے افراد کسی نجات دہندہ کے
انتظار میں ہیں ہر کسی نے اپنے ظرف نظر کے
مطابق اپنے پسندیدہ لیڈروں کو نجات دہندہ تصور
کر رکھا ہے جبکہ وہی متصور لیڈروں سے ہی قوم
نے نجات حاصل کرنی ہے ۔پیپلزپارٹی ،مسلم لیگز
قاف اور نون ،اے این پی اور ایم کیو ایم کو
لوگ عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں جبکہ
موجودہ حالات میں لوگوں کے اندر ان نام نہاد
جماعتوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش جاری
ہے۔ہمارے ملک میں سب سے بڑا سیاسی المیہ یہ ہے
کہ ہماری عوام کسی جماعت کی نظریاتی ساخت کی
بجائے متعلقہ جماعت کے لیڈر کو سب کچھ مان
لیتے ہیں جو کہ سراسر غلط اور اپنے قومی وجود
سے ہی غداری ہے۔یورپ و امریکہ کی سیاسی بیداری
کی بڑی وجوہات میں شخصیات سے زیادہ نظریات کا
عمل دخل ہے کیونکہ لوگ نظریاتی طور پر بیدار
ہو چکے تھے اور تحریک آزادی پاکستان کےلئے بھی
نظریات کا اپنانا ہی کامیابی کی ضمانت تھا۔
ملکی سیاسی جماعتوں میں نظریات مفقود ہیں اور
شخصیات مشہور ہیں بلا شبہ اعلیٰ شخصیات ضروری
ہوتی ہیں مگر نظریات اور عقیدوں سے فرار کیسے
ممکن ہے؟پاکستان میں اس وقت عمران خان کی
جماعت تحریک انصاف کے نام سے اچھا خاصا نام
پیدا کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے سے
اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کو اکثریتی ووٹ
ملیں۔کچھ حلقوں کے خیال میں عمران خان اچھے
ویلفیئر کام کر سکتا ہے مگر اچھی سیاست
نہیں!نوجوانوں کی شمولیت اور رجحان تحریک
انصاف کی جانب بڑھ رہا ہے ۔اس کی ایک وجہ فوج
کی جانب سے تحریک کی ممانعت نہ ہونا اور جماعت
اسلامی کے گماشتوں کا تحریک انصاف میں داخل
ہوناشامل ہیں۔کچھ لوگ اس بڑھتی ہوئی مقبولیت
سے خائف بھی ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا
عمران خان اور تحریک انصاف پاکستانی قوم کےلئے
کچھ کر سکے گی؟؟؟یا پرانے حکمرانوں کی طرح ووٹ
اور پارلیمنٹ کی سیاست ہی کرتی رہے گی؟یہ ایسے
سوالات ہیں جو ہر محب الوطن فرد کے ذہن میں
اُٹھ رہے ہیں۔
تحریک انصاف داخلی ساخت کے اعتبار سے ابھی تک
جمہوری نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت بھی
عمران کی سرکردگی میں بنے گی اگر ایسا ہوا
تحریک انصاف کی حکومت کے شروعات میں انقلابی
اقدامات اٹھائے جائیں گے مگر بیوروکریسی اور
طبقہ اشرافیہ کی پالیسی سے مجبور ہو کر وہی
انقلابی معاملات نارمل رفتار میں چلنے لگیں
گے۔نظریاتی طور پر تحریک انصاف کا نظریاتی
ساخت حکمرانوں اور جاگیرداروں کےلئے تقریباً
موزوں ہے جس کی وجہ سے پذیرائی بھی جلد ہی مل
جائے گی۔بعض حلقوں کے مطابق پاکستانی قوم کی
اکثریت عمران کا ساتھ دے سکتی ہے جس کی غالب
وجہ چہرے کی تبدیلی ہے جس تبدیلی سے غریب اور
آفت زدہ عوام کا بھلا نہ ہو اُس تبدیلی کا تو
نام بھی نہ لیا جائے کیونکہ وہ کسی طرح بھی
انقلاب نہیں۔عمران خان اور جماعت اسلامی کے
مستقبل کے ڈانڈے ملتے ہوئے نظر آ رہے
ہیں۔پاکستان قوم کو اس وقت ایک ایسے نجات
دہندہ کی ضرورت ہے جو قوم کو مشکل وقت میں
سنبھال کر دنیا کی اعلیٰ ترین اقوام کی صف میں
لا کھڑا کرے اور یہ کام انقلاب کی سوا کوئی
نہیں کر سکتا۔عمران خان کی جماعت انقلاب کا
نعرہ تو لگاتی ہے لیکن ساتھ ہی ووٹ اور
پارلیمنٹ کا رونا رو تی نظر آتی ہے۔کچھ لبرل
حلقے عمران خان صاحب سے مایوس ہیں کیونکہ اُن
کے ایجنڈے میں نظام کی تبدیلی کی کوئی شق نظر
ہی نہیں آتی اور ماہرین کے خیال میں جب تک ملک
میں برابری کی سطح پر جمہوریت قائم نہیں ہو تی
پاکستان کبھی بھی نہ سنبھل سکے گا اور نہ ہیں
اعلیٰ قوم بن سکے گا۔عمران خان کو چاہےے کہ
ایجنڈے میں تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرے اور
طبقہ اشرافیہ اور بیورکریسی کا قلع قمع کرنے
کےلئے ایجنڈے میں شقوں کا اضافہ کرے اور
روایتی حکمرانوں کی طرح صرف ووٹ کی بھیک اور
پارلیمنٹ کی گود نہ مانگے۔اس طرح تو عمران خان
بھی ملک میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے گا۔
|
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|