شیخ اسامہ کی
شہادت ،ایک تیر سے کئی شکار
آخر کارتاریخ
کا وہ افسانوی کردار جس نے ایک طویل عرصے تک
عالم کفر خصوصاََ امریکہ کی ناک میں دم کئے
رکھافروری کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی
آپریشن کے نتیجے میں شہید ہو کر ہمیشہ کیلئے
امر ہوگیا۔بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم یہ
ضروری سمجھتے ہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن کے
حالاتِ زندگی پر مختصر سی نظر ڈال لیں ۔
اسامہ بن لادن 10مارچ 1957ء کو سعودی عرب میں
ایک انتہائی معروف کنسٹرکشن کمپنی کے مالک
محمد بن لادن کے گھر پیدا ہوئے صرف گیارہ سال
کی عمر میںان کے والدجن کا شمار شاہ فیصل کے
خاص دوستوں میں بھی ہوتا تھا ایک ہیلی کاپٹر
حادثے میں جاں بحق ہو گئی۔شہزادوں کی طرح
زندگی گزارنے والے اسامہ بن لادن نے ریاض کی
کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سول انجینئرنگ کی
ڈگری حاصل کی وہ زمانہ طالب علمی سے ہی مذہبی
رجحانات کی حامل شخصیت تھے لیکن 1979ء میں
افغانستان پرروسی جارحیت نے ان کی زندگی پر
انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے انہوں نے اپنے
سرمائے سے مجاہدین کی خوب اعانت کی بعد ازاں
خود بھی فریضہ ء جہاد کو ادا کرنے کیلئے
افغانستان چلے آئے یہی وہ وقت تھا جب پوری
دنیا میں اسامہ کا طوطی بول رہا تھا خود
امریکی
cia
اسامہ کو
اسلحہ و تربیت فراہم کرنے میں پیش پیش تھی۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعداسامہ واپس سعودی
عرب چلے گئی۔990ء میں ہونے والی خلیجی جنگ میں
جب امریکی فوج نے جزیرۃالعرب میں قدم رکھے تو
شیخ اسامہ نے اس کو سخت ناپسند کیا اور اسی
مسئلے پر ان کے شاہ فہد کے ساتھ شدید اختلافات
پیدا ہو گئے ۔991ء میں اسامہ نے سعودی عرب کی
شہریت چھوڑدی اور سوڈان چلے گئے اسی دوران
اسامہ کی طرف سے جاری ہونے والے اس فتویٰ نے
عالمگیر شہرت حاصل کی جس میںانہوں نے امریکی
مفادات پر حملوں کو جائز قرار دیاان کے اس
فتوے نے پوری دنیا میں امریکیوں کے خلاف پہلے
سے موجود نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا جس سے
امریکہ تلملا اٹھا اور اس نے اسامہ کی گرفتاری
کیلئے سوڈان پر دبائو ڈالا جس پر اسامہ سوڈان
سے افغانستان منتقل ہو گئے اس وقت تک طالبان
افغانستان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گارھتے
ہوئے تقریباََ0%افغانستان کو اپنے زیرِنگیں کر
چکے تھی۔طالبان نے اسامہ بن لادن کو نہ صرف
اپنے ملک میں پناہ دی بلکہ آخر دم تک اپنے
بھائی کی حفاظت بھی کی اس دوران امریکہ نے
قندھار میں اسامہ کے مبینہ ٹھکانے پر کروز
میزائلوں سے حملہ بھی کیا لیکن ناکامی امریکہ
کا مقدر بنی ۔اس کے بعد 9/11کا وہ حادثہ رونما
ہوا جس نے بجا طور پر تاریخ کا دھارا بدل کے
رکھ دیا
امریکہ نے اس حادثے کا ذمہ دار اسامہ کو قرار
دیتے ہوئے افغانستان سے اس کی فورا حوالگی کا
مطالبہ کیا جسے طالبان نے پائے حقارت سے ٹھکرا
دیا جس پر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا
اس جنگ کے دوران تورا بورا کے پہاڑوں میں بھی
امریکہ اور اسامہ کے حامیوں کے درمیان شدید
جنگ ہوئی لیکن یہاں بھی امریکہ اسامہ کو پکڑنے
میں ناکام رہا ۔ تورا بورا کے بعد سے اسامہ کے
بارے میں کوئی یقینی اطلاع کسی کے پاس نہیں
تھی کہ وہ کہاں َرہائش پزیر ہے البتہ سی آئی
اے اور موساد کی جانب سے وقتاََ فوقتاََاس قسم
کے بیانات جاری ہوتے رہے کہ وہ اسامہ کے بالکل
قریب پہنچ چکے ہیںلیکن ماہرین ان بیانات کو
اپنی شکست خوردہ فوج کا مورال بڑھانے کا ایک
طریقہ قرار دیتے رہی۔لیکن 2فروری کو اچانک
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے اسامہ کی برآمدگی
اورامریکیوں کی جانب سے پاکستانی خفیہ
ایجنسیوں کو مکمل بائی پاس کرتے ہوئے جس طرح
آپریشن کر کے انہیں شہید کیایہ واقعہ اپنے
پیچھے ان گنت سوالات چھوڑ گیا ہے ۔ان میں سب
سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستانی
سرزمین پر اتنی بڑی کاروائی سے قبل آئی ایس
آئی کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ؟کیا امریکہ
آئی ایس آئی کو طالبان یا القائدہ کا ساتھی
سمجھتا ہے ؟اگر ایسا ہے تو اس بات کی کیا
ضمانت ہے کہ کل کلاں امریکہ دوبارہ ایسا مِس
ایڈونچر نہیں کرے گا ؟ امریکہ کی اس ہرزہ
سرائی کا جواب کون دے گا کہ پاکستان اسامہ کو
پناہ دینے میں ملوث ہے یا اس نے نا اہلی کا
ثبوت دیا ؟یہ تمام سوالات اس بات کی واضح چغلی
کھاتے نظر آتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور
امریکہ کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ
ہونے جا رہے ہیں ۔یہاں پر ایک قابلِ غور نکتہ
یہ بھی ہے کہ وکی لیکس کے مطابق امریکہ اسامہ
کے اس ٹھکانے سے شروع سے ہی باخبر تھا اس نے
یہ آپریشن پہلے کیوں نہیں کیا ؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آپریشن کیلئے
امریکہ
timing
کا خاس طور پر
خیال رکھا ہے اور یقیناََایک تیر سے کئی شکار
کھیلنے کی کوشش کی ہے مثلاََیہ آپریشن ایک
ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی فوجیں
افغانستان میں زِچ ہو کر بھاگنے کی تیاری کر
رہی تھیں ،دوم ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد آئی ایس
آئی اور سی آئی اے کے درمیان کشیدگی اپنے عروج
پر پہنچ چکی تھی اور اب اسامہ کی پاکستان میں
طویل عرصے سے موجودگی کا راگ الاپ کر پاک فوج
اور آئی ایس آئی کو ایک بار پھر دفاعی پوزیشن
پر کھڑا کر دیا گیا ہے اور ہمارے صدر محترم تو
پہلے ہی اسامہ کی شہادت کو ''سب سے بڑی برائی
کا خاتمہ'قرار دے کر اپنے آقا کی غلامی کا حق
ادا کر چکے ہیں ۔حالانکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم
اپنے حقیقی دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے ہوئے
اور قومی سلامتی کے پیشِ نظر نئے سرے سے موثر
اور جامع حکمتِ عملی مرتب دیں ورنہ پھر بہت
دیر ہو جائیگی۔ |