اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت15-01-2009

 کوٹ ادو کی سیاست میں نئے ہیرو کا اضافہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

تحریرروف عامر پپا بریار عنوان۔
کار زار سیاست میں کوٹ ادو عالمی شہرت رکھتا ہے۔پاکستان کے قائم مقام گورنر جنرل مشتاق احمد گورمانی سے لیکر شیر پنجاب کے استعارے سے ملک گیر شہرت رکھنے والے سابق گورنر مصطفی کھر کو کوٹ ادو کی دھرتی نے جنم دیا۔ کوٹ ادو کی سیاسی میراث پر روز اول سے ہی جاگیرداروں کا غلبہ رہا۔ یہاں کی سیاہ بخت عوام نے اپنے سیاسی رہنماوں کو ریاست کے اعلی ترین سرکاری مناصب پر فروکش کیا جو یہاں کی غربت و پسماندگی و جہالت کو تعمیر و ترقی اور خوشحالی و ہریالی میں بدل سکتے تھے کیونکہ انکی زبان سے نکلا ہوا ایک حرف علاقے کے مقدر کے سکندر کو چار چاند لگاسکتا تھا مگر وڈیروں نے جان بوجھ کر ووٹرز کے پاوں میں غلامی کی بیڑیاں اور استحصال کی ہتھکڑیاں پہنائے رکھیں تاکہ وہ انہیں ہی اپنا اقا و ملجی بنائے رہیں۔استبدادیت کا سلسلہ2002 تک قائم رہا۔فطرت یذداں ہر دور میں جہاں ایک طرف فرعونوں کو ڈھیل دیتی ہے تو دوسری طرف فرعونیت کے بت کو پاش پاش کرنے کے لئے موسی بھی ودیعت کرتی ہے۔کوٹ ادو میں بھی جاگیرداروں کو شکست دینے کے لئے قدرت نے شیخ عمر کے قریشی خاندان کے جواں ہمت نوجوان محسن قریشی کو موسی کی پیروکاری کا ایوارڈ عطا کیا۔ قدرت کا کرشمہ ملاحظہ کریں کہ محسن قریشی خود جاگیردار گھرانے کا چشم و چراغ ہے مگر یہی جاگیردار خود جاگیرداریت کا سب سے بڑا دشمن نکلا اور پھر اسی باغی نوجوان نے غریب عوام کو اپنی سیاست کا محور و مرکز بنا کر وڈیروں کو ایسی شکست فاش سے دوچار کیا کہ سیاسی پنڈت چکرا کررہ گئے۔ محسن قریشی1988 میں سیاسی اکھاڑے میں اترا۔ اس نے پی پی پی کی تحصیل صدارت سے لیکر ضلعی صدارت تک کا سفر18سالوں میں مکمل کیا۔مخالفین نے اس جاں گسل عرصے میں محسن کو ہرانے اور سیاسی منظر سے غائب کرنے کی چالبازیاں چلیں۔فر یبیوں نے بولیاں سجائیں رزیلوں نے جھولیاں پھیلائیں شکاریوں نے ٹولیاں بنائیں مگر سارے حربے مٹی مٹی ہوگئے اور ہر سو محسن کا ڈنکا بجنے لگا۔ محسن پاکستان کے ان معدودے سیاسی گروہ میں شامل ہے جنکی قبائے ابرو پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں۔ قریشی نے اپنی ساری جاگیر غریب پروری مہمان نوازی پی پی پی کی تنظیم نو پر بھون دی۔اس نے اپنی سخاوت دیانت جرات و بسالت اور بصیرت سے محکوم عوام کو زبان دی۔2001 میں محسن قریشی نے اپنی زوجہ خالدہ بی بی کو طرم خان امیدواروں جن میں مصطفی کھر اور سابق ضلع ناظم مظفرگڑھ سلطان ہنجرا کے بھتیجے طاہر میلادی اور قاسم ہنجرا کے مقابلے میں اتارا اور سرخرو ہوئے۔خالدہ بی بی کو مشرف کے ہرکاروں نے پی پی پی چھوڑ کر ق لیگ کا ہمسفر بننے کی صورت میں50 کروڑ روپے نقد وزارتوں نظامتوں کی پیشکش کی مگر وہ محسن قریشی کو خریدنے میں ناکام ہوئے۔وہ بے نظیر بھٹو کا جانثار سپاہی بنکر حکومتی مصائب کا سامنا کرتا رہا۔2008 میں محسن قریشی خودna 176 سے پی پی کے ٹکٹ پر کھروں و ہنجراوں کو روند کر ایم این اے بن گیا۔اسکی عقیدت میں لوگ دیوانہ وار پی پی کے بیلٹ باکسوں کو بھرتے رہے۔مخالفوں نے کروڑوں پھونکے مگر محسن قریشی کا انتخابی خرچہ75 ہزار پر تھم گیا۔کوٹ ادو کے سرکاری دفاتر میں ببھونچال اگیا۔راشی افسران کو جانوں کے لالے پڑ گئے۔کسان مزدور ریڑھی بان بیوروکریٹوں کے دفاتر میں عزت کے ساتھ بیٹھنے لگے۔مظلوم لوگوں نے سابق ادوار میں جو رشوتیں دی تھیں وہ واپس ہونے لگیں۔پٹواریوں کے کمیشن بند ہوگئے۔تھانوں میں انصاف ہونے لگا۔محسن قریشی نے ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا۔وہ اسلام اباد اور کوٹ ادو کے درمیان شٹل کاک بن گیا۔ڈاکٹرز نے بار بار وارننگ دی کہ صحت گرتی جارہی ہے کچھ عرصہ ریسٹ کرو مگر قریشی نے کسی کی نہ سنی اور غریب و بے بس لوگوں کا مسیحا بنا رہا۔15 جنوری 2009 کو ضلع مظفرگڑھ کے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والا محسن قریشی ریلوے پھاٹک کا افتتاح کررہا تھا کہ برین ہیمبرج نامی مہلک بیماری نے اسے جکڑ لیا۔آغا خان ہسپتال کراچی میں انکا اپریشن ہوا اور اجکل وہ پمز ہسپتال اسلام اباد میں تیزی کے ساتھ صحت یاب ہورہے ہیں۔محسن علیل ہوا تو حلقے کے ہر گھر میں کہرام برپا ہوگیا۔ہر گھر میں اسکی صحت یابی کے لئے قران خانی ہوئی۔جگہ جگہ صدقے دئیے گئے۔لاکھوں سر رحمن کے حضور سر بسجود ہوکر دعائیں مانگنے لگے۔رنگ پور سے لیکر چوک منڈا اور دائرہ دین پناہ سے لیکر سناوں تک غمگین شام کے سائے دراز ہوگئے۔اسکی بیماری نے اسے افسانوی کردار بنادیا۔اج بھی ہر قرئیے ،محلے ،مسجد ، ہوٹل، کھیت و کھلیان میں محسن قریشی کی یگانگت و الفت میں دعاوں کا میلہ سجا ہوا ہے۔ محسن قریشی ان عظیم شخصیات کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جو اپنی دھرتی ملک و قوم کے لئے گوہر نایاب کا درجہ رکھتے ہیں۔قریشی فیملی اور جیالا گروپ کے رفیق قریشی واجد قریشی، وسیم قریشی میاں غلام علی قریشی پیر ماجد گیلانی غضنفر نیازی مظہر پہوڑ رائے عابد، بیرسٹر یوسف ہنجرا،رانا جاوید قاسم مغل عباسو جیالا ملک شریف نے پارٹی کی اپرقیادت کے ساتھ طویل غور و خوض کے بعد محسن قریشی کے جانشین فرزند ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو باپ کی صحت یابی تک سیاسی دنگل میں اتار دیا۔شبیر قریشی کی سیاسی قبیلے میں شمولیت کو عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے۔جیالوں کا کہنا ہے شبیر کی امد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔شنید ہے کہ اگلے الیکشن میں والدہ خالدہ بی بیex mna اور والد محسن قریشیmna کی جیتی ہوئی نشتna 176 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ڈاکٹر شبیر علی صرف22 سالہ جازب نظر نوجوان ہے۔وہ اپنے جری باپ کی منہ بولتی تصویر ہے۔شبیر علی کی سیاسی امد نے محسن قریشی کی بیماری کا روگ پالنے والے جیالوں ووٹرز اور علاقائی عوام کی مایوسی اور اداسی کی خزاوں کو بہاروں میں بدل دیا۔شبیر کی چشم افروز گفتگو ملنے والے کو اپنی محبت کے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔اسکی انکھوں کی روشنی دیکھنے والوں سے کہتی ہے کہ وہ علاقائی جہالت کو شعور کی روشنیوں سے منور کردے گی۔ وہ عزم صمیم جنون جہد مسلسل کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر باپ کے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔وہ دیوانگی کی حد تک زیردستوں اور محکوموں کی دست گیری کرنے کے سفر پر نکل چکا ہے۔وہ باپ کی طرح نسلی نفوق اور برادری ازم کو تسلیم نہیں کرتا۔شبیر علی کی سیاسی بصیرت کم عمری کے باوجود اعلی پائے کی ہے۔محسن قریشی نے اپنی عظیم جدوجہد اور تاریک گھروں میں روشنی باٹنے کے لئے اپنے خون جگر سے جو شمع20 سال پہلے روشن کی تھی وہ شبیر علی کی شکل میں اگلے کئی سالوں تک جگمگاتی رہے گی۔محسن قریشی نے پی پی کے ضلعی صدر کی حثیت سے پچھلے الیکشن میں ایک ملک گیر ریکارڈ قائم کیا تھا پی پی پی نے ضلع مظفرگڑھ کی پانچوں قومی نشتوں پر کلین سوئیپ کیا تھا مگر پی پی پی نے محسن قریشی کو وزارت نہ دیکر عوام کے دلوں میں نشتر پیوست کئے تھے۔اہلیان کوٹ ادو اور قومی حلقہ176 کے لاکھوں لوگ صدر مملکت آصف علی زرداری و یوسف رضا گیلانی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے مرد قلندر اور درویش ایم این اے محسن قریشی کی طلسماتی خدمات کے اعتراف میں شبیر علی یا سابق ایم این اے خالدہ محسن کو مشیر کے عہدے پر فائز کیا جائے۔کوٹ ادو کے ہاکی اسٹیڈیم کو محسن قریشی اسٹیڈیم کا نام دیا گیا ہے۔صدر و وزیراعظم محسن قریشی ہاکی اسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے دو کروڑ کی گرانٹ منظور کرے۔پورے حلقہ میں بجلی دے جائے اور کوٹ ادو میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے کیمپس تعمیر کئے جائیں۔یاد رہے محسن قریشی روبہ صحت ہیں انکی بیماری کے متعلق پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ رب العالمین محسن قریشی کو جلد صحت یاب کرے اور انکے جانشین فرزند ڈاکٹر شبیر علی کو کامیابیاں نصیب کرے۔قومی حلقے176 کے لاکھوں لوگ شبیر علی کو اپنا سیاسی رہبر مان کر دل کی گہرائیوں سے ویلکم کرتے ہیں۔
 

 
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team