سی ائی اے
افغان جنگ میں امریکی فوجیوں کی عزت سادات اور
شکست کے بدنما داغ سے بچنے کے کئی پاپڑ پیل
رہی ہے۔سی ائی اے کے ہنر مندوں نے کئی منصوبہ
بندیاں اور چالیں سوچ رکھی ہیں جنکے استعمال
سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کا کم سے کم
نقصان ہو مگر سی ائی اے کی تمام چالیں الٹی
ہوگئیں۔سی ائی اے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ
ہوا ہے کہ ایجنسی کے کارندے اتنی بڑی تعداد
میں مار ے گئے۔chapman افغانستان کے صوبے خوست
میں cia کا ہیڈ کوارٹر ہے اسے فارورڈنگ
اپریٹنگ روم کہا جاتا ہے۔پاکستان کے فاٹا میں
قیامت صغری برپا کرنے والے ڈرون میزائلوں و
جاسوس طیاروں کی نقل و حمل ٹارگٹ سمیت اہم
امور اسی ہیڈکوارٹر سے کنٹرول کئے جاتے
ہیں۔خوست میں ہیڈ کوارٹر کے قیام کا مقصد
القاعدہ و طالبان کی قیادت کا مکمل صفایا کرنا
تھا جبکہ خطے کی ساری صورتحال کو بھی یہیں سے
مانیٹر کیا جاتا تھا۔سی ائی اے کو اپنے ہیڈ
کوارٹر کی مدد سے ملنے والی کامیابوں پر بڑا
ناز تھا مگر سی ائی اے سمیت ناٹو فورسز کی
تمام اکڑفوں یکم جنوری2010 کو ابلتے ہوئے پانی
کے بلبلوں کی طرح پل بھر میں ختم ہوگئی کیونکہ
خوست میںسی ائی اے کے ہیڈ کوارٹر پر خود کش
حملہ ہوا جس میں ابو ملال البلادی نامی خودکش
بمبار نے ہیڈ کوارٹر کو صفحہ ہستی سے
مٹادیا۔ابوملال البلادی کے متعلق اتنا پتہ چلا
ہے کہ سی ائی اے نے اسے اپنا ایجنٹ بنایا اور
پھر فائنل معاملات کی تکمیل پر البلادی کو cia
ہیڈکوارٹر میں لایا گیا۔سی ائی اے کو البلادی
نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ القادعہ و
طالبان کی اپر قیادت و مطلوب رہنماوں کو
گرفتار یا ہلاک کروائے گا۔البلادی ہیڈ کوارٹر
میں ایا تو اسے ملنے کے لئے cia کے13 اعلی
افیسرز بھی ہیڈ کوارٹر میں وارد ہوئے اور
7لقمہ اجل بن گئے۔یہ cia کی تاریخ میں پہلا
موقع ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میڈیا میں چھپ
گئی ورنہ ماضی میں cia اپنے مقتولین کو منظر
عام پرلانے سے کنی کتراتی رہی۔1983 میں بیروت
کے امریکی سفارتخانے میں اٹھ افیسرز جنکا تعلق
سی ائی اے سے تھا وہ ہلاک ہوگئے۔ایک حریت پسند
نے بارود سے بھرا ہوا ٹرک سفارتخانے پر
چڑھادیا جس نے مجموعی طور پر67 افراد کو لحد
نشین کردیا۔cia نے ہلاکتوں کے متعلق کوئی
جانکاری نہ دی۔بیروت کے بعد خوست سی ائی اے کے
لئے وبال جان بن گیا۔یہ cia کی تاریخ کا دوسرا
بڑا واقعہ ہے۔سی ائی اے اپنے ایجنٹوں کی خدمات
کا اعتراف واشنگٹن میں سی ائی اے کے مین ہیڈ
کوارٹر میں موجود سنگ مر مر کی دیوار پر ستارے
بنا کر کرتی ہے۔مجموعی طور پر سئی ائی اے کے
ہیڈ کوارٹر کی دیوار پر نوے ستارے موجود ہیں
جن میں55 ستاروں پر تو ciaکے ہلاک شدگان
ایجنٹوں کے نام کندہ ہیں مگر پینتیس بدقسمت
ایسے ہیں جنکے نام ظاہر نہیں کئے گئے۔دیوار کے
ساتھ سٹیل کے ڈبے میں ایک کتاب بھی موجود ہے
جس میں مرنے والے ایجنٹوں کے نام کارناموں کی
تفصیل اور مقام ہلاکت کا زکر کیا جاتا ہے۔cia
خوست میں ہلاک ہونے والے سات افیسرز کے ستارے
بنا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گی۔cia اور
گورے فوجیوں کے لئے افغانستان قبرستان بن چکا
ہے۔برطانیہ نے تسلیم کیا ہے کہ ہلاکتوں کی شرح
ویت نام و دوسری جنگ عظیم سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ciaکے افلاطون ہمیشہ یہ راگ الاپتے تھے کہ
سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے ciaنے
مجاہدین کی حمایت کی تھی اگرcia مجاہدین کی
دستگیری نہ کرتی تو وہ کسی صورت میں سوویت
یونین کو ہرانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ سی ائی اے
کے شعبدہ باز خوست کے واقعے پر کیا کہیں گے ؟
افغاستان کے ایہی علاقوں میں طالبان کے کنٹرول
پر کیا موقف اپناتے ہیں کیا طالبان کوcia یا
دنیا کی کسی ایجنسی کی حمایت حاصل ہے؟ سی ائی
اے اور امریکہ کو cia کے ہیڈ کوارٹر کی تباہی
سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نئی افغان پالیسی کے
اجرا کے باوجود ناٹو فورسز کو کامیابی ملنا
ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے مترادف ہے۔صدر
اوبامہ کی افغان پالیسی کو پاکستان اور عالمی
سطح پر نکتہ چینی کا سامنا ہے۔خود امریکہ میں
صدر اوبامہ سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ جنگ کے
ساتھ پلان بی پر بھی عمل کیا جائے۔اوبامہ نے
نئے فوجی دستوں کی منظوری کے وقت پلان بی کا
اعلان بھی کیا تھا وہ پلان کردھر گیا۔پاکستان
کی سابق سفیر ملحیہ لودھی اور برطانیہ کے کنگ
کالج میں جنگی ہسٹری کی پروفیسر اناتولے لیون
کے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مشترکہ
مضمون >افغانستان امریکی حکمت عملی و پاکستان
< میں لکھا ہے کہ ماضی کا مشاہدہ الم نشرح
کرتا ہے کہ نئے فوجی دستے افغانستان میں
ناکامی کا شکار ہونگے۔ہوسکتا ہے کہ طالبان
دفاعی پوزیشن اختیار کرلیں مگر پاکستان و
افغانستان کے پشتون علاقوں میں امریکہ سے شدید
ترین نفرت کے کارن طالبان کو حمایت حاصل
ہے۔یوں طالبان کو سرے سے صفا کرنا ممکن ہی
نہیں۔جہاں تک افغانستان کو ترقی دینے کے
امریکی منصوبے کا تعلق ہے تو یہ کرزئی کے اٹھ
سالوں میں مکمل ناکام رہا ہے تو بھلا یہ اگلے
اٹھارہ مہینوں میں کیسے کامیاب ہوگا۔دونوں
مضمون نویسوں نے تجزیہ کیا ہے کہ افغانستان کی
فوج کسی صورت میں امریکی فوجوں کی جگہ نہیں لے
سکتی۔تعلیم کی کمی، پیشہ وارانہ کمی افغان قوم
کی فوج سے عدم دلچسپی اور پشتونوں کی برائے
نام شمولیت نے افغان فوج کے لئے خطرے کا الارم
بجادیا ہے کہ وہ قومی فورس کا روپ نہیں ڈھال
سکتی۔روسیوں کو کابل میں شاہی فورس ورثے میں
ملی تھی جس میں پشتون شامل تھے مگر شمالی
معاہدہ کے تحت مغرب کی کھڑی کردہ افغان فورس
غیر پشتون علاقوں میں تو کچھ کرنے کے قابل بن
سکتی ہے مگر یہ طالبان کے گڑھ پشتون علاقوں
میں پر مارنے کے قابل نہیں۔ان حالات میں سیاسی
مفاہمت کے نام پر طالبان سے مذاکرات کرکے
پشتون علاقوں کی حاکمیت انکے سپرد کردی جائے۔
نیو عسکری دستے فوجی دباو کی مجرب شاطرانہ چال
ہیں جو طالبان کومذاکرات پر امادگی کی کوشش کا
زریعہ بن سکتی ہے۔اگر سیاسی حکمت عملی پر غور
نہ کیا گیا تو واشنگٹن بھی اسرائیل کی طرح ختم
نہ ہونے والے بکھیڑوں میں الجھ جائے گا۔ملحیہ
لودھی اور انا تولے لیون نے اوبامہ کو مشورہ
دیا ہے کہ اگر اوبامہ مذاکرات کو خارج از
امکان نہیں سمجھتے تو پھر اسکی ابتدا ابھی سے
کرلینی چاہیے اور امریکہ کو ایسے فوجی اقدامات
روبہ عمل نہیں لانے چاہیں کیونکہ طالبان سے
مذاکرات اور لوگوں کا قتل ایک ساتھ اکٹھے نہیں
چل سکتے۔امریکہ طالبان کے خلاف مذید کچھ کرنے
کا دباو مت ڈالے کیونکہ اس طرح پاک فوج کے
عسکریت پسندوں کے خلاف اپریشن محدود ہوجائیں
گے۔پاکستان پہلے ہی دشوار گزار صورتحال سے
نبزازما ہے۔امریکہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند
کردے . پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوتے رہیں
گے جو سیکیورٹی ایٹیبلشمنٹ کو افغان جنگ سے
دستکش ہونے پر مجبور کردیں گے۔ ملحیہ لودھی و
انا تولے لیون کے ارٹیکل میں پاکستان اور
امریکہ دونوں کے لئے کئی سبق ازما رموز موجود
ہیں۔اگر امریکہ اپنے کٹر دشمن طالبان سے
مذاکرات کی راہ اپنا سکتا ہے تو پھر پاکستان
کو ایسا کرنے میں کیا دقت ہے۔
سی ائی اے امریکہ و پاکستان
سی ائی اے افغان جنگ میں امریکی فوجیوں کی عزت
سادات اور شکست کے بدنما داغ سے بچنے کے کئی
پاپڑ پیل رہی ہے۔سی ائی اے کے ہنر مندوں نے
کئی منصوبہ بندیاں اور چالیں سوچ رکھی ہیں
جنکے استعمال سے افغانستان میں امریکی فوجیوں
کا کم سے کم نقصان ہو مگر سی ائی اے کی تمام
چالیں الٹی ہوگئیں۔سی ائی اے کی تاریخ میں
پہلی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ ایجنسی کے کارندے
اتنی بڑی تعداد میں مار ے گئے۔chapman
افغانستان کے صوبے خوست میں cia کا ہیڈ کوارٹر
ہے اسے فارورڈنگ اپریٹنگ روم کہا جاتا
ہے۔پاکستان کے فاٹا میں قیامت صغری برپا کرنے
والے ڈرون میزائلوں و جاسوس طیاروں کی نقل و
حمل ٹارگٹ سمیت اہم امور اسی ہیڈکوارٹر سے
کنٹرول کئے جاتے ہیں۔خوست میں ہیڈ کوارٹر کے
قیام کا مقصد القاعدہ و طالبان کی قیادت کا
مکمل صفایا کرنا تھا جبکہ خطے کی ساری صورتحال
کو بھی یہیں سے مانیٹر کیا جاتا تھا۔سی ائی اے
کو اپنے ہیڈ کوارٹر کی مدد سے ملنے والی
کامیابوں پر بڑا ناز تھا مگر سی ائی اے سمیت
ناٹو فورسز کی تمام اکڑفوں یکم جنوری2010 کو
ابلتے ہوئے پانی کے بلبلوں کی طرح پل بھر میں
ختم ہوگئی کیونکہ خوست میںسی ائی اے کے ہیڈ
کوارٹر پر خود کش حملہ ہوا جس میں ابو ملال
البلادی نامی خودکش بمبار نے ہیڈ کوارٹر کو
صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ابوملال البلادی کے متعلق
اتنا پتہ چلا ہے کہ سی ائی اے نے اسے اپنا
ایجنٹ بنایا اور پھر فائنل معاملات کی تکمیل
پر البلادی کو cia ہیڈکوارٹر میں لایا گیا۔سی
ائی اے کو البلادی نے یقین دہانی کروائی تھی
کہ وہ القادعہ و طالبان کی اپر قیادت و مطلوب
رہنماوں کو گرفتار یا ہلاک کروائے گا۔البلادی
ہیڈ کوارٹر میں ایا تو اسے ملنے کے لئے cia
کے13 اعلی افیسرز بھی ہیڈ کوارٹر میں وارد
ہوئے اور 7لقمہ اجل بن گئے۔یہ cia کی تاریخ
میں پہلا موقع ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میڈیا
میں چھپ گئی ورنہ ماضی میں cia اپنے مقتولین
کو منظر عام پرلانے سے کنی کتراتی رہی۔1983
میں بیروت کے امریکی سفارتخانے میں اٹھ افیسرز
جنکا تعلق سی ائی اے سے تھا وہ ہلاک ہوگئے۔ایک
حریت پسند نے بارود سے بھرا ہوا ٹرک سفارتخانے
پر چڑھادیا جس نے مجموعی طور پر67 افراد کو
لحد نشین کردیا۔cia نے ہلاکتوں کے متعلق کوئی
جانکاری نہ دی۔بیروت کے بعد خوست سی ائی اے کے
لئے وبال جان بن گیا۔یہ cia کی تاریخ کا دوسرا
بڑا واقعہ ہے۔سی ائی اے اپنے ایجنٹوں کی خدمات
کا اعتراف واشنگٹن میں سی ائی اے کے مین ہیڈ
کوارٹر میں موجود سنگ مر مر کی دیوار پر ستارے
بنا کر کرتی ہے۔مجموعی طور پر سئی ائی اے کے
ہیڈ کوارٹر کی دیوار پر نوے ستارے موجود ہیں
جن میں55 ستاروں پر تو ciaکے ہلاک شدگان
ایجنٹوں کے نام کندہ ہیں مگر پینتیس بدقسمت
ایسے ہیں جنکے نام ظاہر نہیں کئے گئے۔دیوار کے
ساتھ سٹیل کے ڈبے میں ایک کتاب بھی موجود ہے
جس میں مرنے والے ایجنٹوں کے نام کارناموں کی
تفصیل اور مقام ہلاکت کا زکر کیا جاتا ہے۔cia
خوست میں ہلاک ہونے والے سات افیسرز کے ستارے
بنا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گی۔cia اور
گورے فوجیوں کے لئے افغانستان قبرستان بن چکا
ہے۔برطانیہ نے تسلیم کیا ہے کہ ہلاکتوں کی شرح
ویت نام و دوسری جنگ عظیم سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ciaکے افلاطون ہمیشہ یہ راگ الاپتے تھے کہ
سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے ciaنے
مجاہدین کی حمایت کی تھی اگرcia مجاہدین کی
دستگیری نہ کرتی تو وہ کسی صورت میں سوویت
یونین کو ہرانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ سی ائی اے
کے شعبدہ باز خوست کے واقعے پر کیا کہیں گے ؟
افغاستان کے ایہی علاقوں میں طالبان کے کنٹرول
پر کیا موقف اپناتے ہیں کیا طالبان کوcia یا
دنیا کی کسی ایجنسی کی حمایت حاصل ہے؟ سی ائی
اے اور امریکہ کو cia کے ہیڈ کوارٹر کی تباہی
سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نئی افغان پالیسی کے
اجرا کے باوجود ناٹو فورسز کو کامیابی ملنا
ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے مترادف ہے۔صدر
اوبامہ کی افغان پالیسی کو پاکستان اور عالمی
سطح پر نکتہ چینی کا سامنا ہے۔خود امریکہ میں
صدر اوبامہ سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ جنگ کے
ساتھ پلان بی پر بھی عمل کیا جائے۔اوبامہ نے
نئے فوجی دستوں کی منظوری کے وقت پلان بی کا
اعلان بھی کیا تھا وہ پلان کردھر گیا۔پاکستان
کی سابق سفیر ملحیہ لودھی اور برطانیہ کے کنگ
کالج میں جنگی ہسٹری کی پروفیسر اناتولے لیون
کے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مشترکہ
مضمون >افغانستان امریکی حکمت عملی و پاکستان
< میں لکھا ہے کہ ماضی کا مشاہدہ الم نشرح
کرتا ہے کہ نئے فوجی دستے افغانستان میں
ناکامی کا شکار ہونگے۔ہوسکتا ہے کہ طالبان
دفاعی پوزیشن اختیار کرلیں مگر پاکستان و
افغانستان کے پشتون علاقوں میں امریکہ سے شدید
ترین نفرت کے کارن طالبان کو حمایت حاصل
ہے۔یوں طالبان کو سرے سے صفا کرنا ممکن ہی
نہیں۔جہاں تک افغانستان کو ترقی دینے کے
امریکی منصوبے کا تعلق ہے تو یہ کرزئی کے اٹھ
سالوں میں مکمل ناکام رہا ہے تو بھلا یہ اگلے
اٹھارہ مہینوں میں کیسے کامیاب ہوگا۔دونوں
مضمون نویسوں نے تجزیہ کیا ہے کہ افغانستان کی
فوج کسی صورت میں امریکی فوجوں کی جگہ نہیں لے
سکتی۔تعلیم کی کمی، پیشہ وارانہ کمی افغان قوم
کی فوج سے عدم دلچسپی اور پشتونوں کی برائے
نام شمولیت نے افغان فوج کے لئے خطرے کا الارم
بجادیا ہے کہ وہ قومی فورس کا روپ نہیں ڈھال
سکتی۔روسیوں کو کابل میں شاہی فورس ورثے میں
ملی تھی جس میں پشتون شامل تھے مگر شمالی
معاہدہ کے تحت مغرب کی کھڑی کردہ افغان فورس
غیر پشتون علاقوں میں تو کچھ کرنے کے قابل بن
سکتی ہے مگر یہ طالبان کے گڑھ پشتون علاقوں
میں پر مارنے کے قابل نہیں۔ان حالات میں سیاسی
مفاہمت کے نام پر طالبان سے مذاکرات کرکے
پشتون علاقوں کی حاکمیت انکے سپرد کردی جائے۔
نیو عسکری دستے فوجی دباو کی مجرب شاطرانہ چال
ہیں جو طالبان کومذاکرات پر امادگی کی کوشش کا
زریعہ بن سکتی ہے۔اگر سیاسی حکمت عملی پر غور
نہ کیا گیا تو واشنگٹن بھی اسرائیل کی طرح ختم
نہ ہونے والے بکھیڑوں میں الجھ جائے گا۔ملحیہ
لودھی اور انا تولے لیون نے اوبامہ کو مشورہ
دیا ہے کہ اگر اوبامہ مذاکرات کو خارج از
امکان نہیں سمجھتے تو پھر اسکی ابتدا ابھی سے
کرلینی چاہیے اور امریکہ کو ایسے فوجی اقدامات
روبہ عمل نہیں لانے چاہیں کیونکہ طالبان سے
مذاکرات اور لوگوں کا قتل ایک ساتھ اکٹھے نہیں
چل سکتے۔امریکہ طالبان کے خلاف مذید کچھ کرنے
کا دباو مت ڈالے کیونکہ اس طرح پاک فوج کے
عسکریت پسندوں کے خلاف اپریشن محدود ہوجائیں
گے۔پاکستان پہلے ہی دشوار گزار صورتحال سے
نبزازما ہے۔امریکہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند
کردے . پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوتے رہیں
گے جو سیکیورٹی ایٹیبلشمنٹ کو افغان جنگ سے
دستکش ہونے پر مجبور کردیں گے۔ ملحیہ لودھی و
انا تولے لیون کے ارٹیکل میں پاکستان اور
امریکہ دونوں کے لئے کئی سبق ازما رموز موجود
ہیں۔اگر امریکہ اپنے کٹر دشمن طالبان سے
مذاکرات کی راہ اپنا سکتا ہے تو پھر پاکستان
کو ایسا کرنے میں کیا دقت ہے۔
|