پاکستان اور بھارت ہر سال ایک دن کے وقفے سے
بالترتیب14 اگست اور15 اگست کو یوم ازادی بڑی
دھوم دھام سے مناتے ہیں مگر دونوں ممالک کے
جشن ازادی کے تاریخ ساز موقع پر میری طبعیت
خار خار ہوجاتی ہے اور سابق برصغیر کے باشندے
کی حثیت سے میری روح تھر تھر کانپنے لگتی
ہے۔بھارت کو زعم ہے کہ وہ کائنات کی سپریم
ڈیموکریسی کا درجہ رکھتا ہے جبکہ پاکستان عالم
اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے مگر دونوں64 سال
گزرنے کے باوجود سانحہ کشمر کو ابھی تک حل
کرنے میں ناکام ہیں۔میرا المیہ یہ ے کہ اسی
برصغیر میں ایک قوم مظلوم ایسی بھی ہے جسے چھ
سے استعماری غلامی کے شکنجے میں جکڑ کررکھا
گیا ہے۔دہلی اور اسلام اباد میں چودہ اور پندر
اگست کو جب جشن ازادی کی رعنائیاں جھوم رہی
ہوتی ہیں تو بعین اسی وقت سری نگر میں
کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہوتا ہے۔پاکستان نہ
تو کسی مسلح تحریک کا نتیجہ ہے اور نہ ہی یہ
کسی فوجی کاروائی یا جرنیل سازی سے معرض وجودد
میں ایا۔ہزاروں صدیوں سے دنیا کے نقشے پر
مختلف مملکتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں۔کبھی
کسی نے تلوار سے دوسرے حصے کو اپنی مملکت کی
وسعت کو ممکن بنایا اور کبھی کسی نے ریاستی
جبر و سطوت سے کمزور قوموں کی ازادی سلب
کرلی۔دنیا نہ تو کبھی ایک ہوئی ہے اور نہ ہی
کبھی وہ ایک رہ سکتی ہے۔پاکستان نظریاتی تشخص
کے بل بوتے پر قائم ہوا۔ ہندوستان کی تخت
نشینی طویل عرصے تک مسلمانوں کے سپرد
تھی۔مسلمان اقلیت میں ضرور تھے تاہم کردار کی
قوت اور تلوار کی طاقت نے انہیں حکمرانی عطا
کی مگر جب انکے کردار کو دیمک لگی اور انکے
ہاتھ تلوار کی بجاے طاوس و رباب کے بادہ و جام
میں ٹکرانے لگے تو انکے اقتدار کا سورج غروب
ہوگیا۔ جب برطانوی سامراج نے ابادی کی بنیاد
پر انتظامی عہدوں کی بندر بانٹ کی تو مسلم
زعما نے محسوس کیا کہ انکے سامنے کورنش
بجالانے والی قوم غالب ارہی ہے تو قائد اعظم
کی سربراہی میں مسلم لیگ نے اپنے مخصوص تشخص
اور تہذیبی روایات کے تناظر میں علحیدہ وطن کا
مطالبہ کیا۔یوں بھارت اور پاکستان1948 میںالگ
الگ ملک بن گئے۔بھارت نے کشمیریوں کی مرضی کے
برعکس وہاں شب خون مار کر قبضہ کرلیا۔اسی
تنازعے پر تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔کشمیری
اپنے حق خود ارادیت اور ازدی کی فرمانروائی کے
لئے دودہائیوں سے مسلح بھارتی افواج کے ساتھ
صف ارا ہے۔ایک لاکھ کشمیری ازادی کے لئے جانیں
قربان کرچکے ہیں۔بھارت نے
uno
قرادادوں کی
حرمت پامال کی اور رائے شماری کی قراردادوں کو
بوٹوں تلے روند ڈالا۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ
انگ کہتا ہے مگر کشمیری ہر صورت میں بھارتی
تسلط سے ازادی چاہتے ہیں۔ بھارت کا موقف ہے کہ
تقسیم ہند کے وقت کشمیری مہاراجے ہری سنگھ نے
کشمیرکا ا الحاق بھارت سے کیا تھا مگر بھارتی
موقف مختلف ادوار میں غلط ثابت ہوتا رہا
ہے۔برطانیہ کی شہرہ افاق مصنفہ ایسٹر لیمب نے
اپنی کتاب
kashmir a
disputed logagc
میں بھارتی
حکومت کے اس دعوے کو سرا سر مسترد کردیا کہ
ہری سنگھ نے26 اگست کو بھارت کے ساتھ الحاق کی
قانونی دستاویزات پر دستخط کردئیے تھے حاانکہ
سچ تو یہ ہے انڈین پرائم منسٹر مہاجن اور ہری
سنگھ کے مابین ملاقات ہی نہیں ہوسکی۔ہری سنگھ
سری نگرسے بذریعہ کار جموں ایا تھا جبکہ
بھارتی پرائم منسٹر مہاجن دہلی میں امن و امان
کے مسائل سے نپٹنے کے لئے اجلاس میں شامل
تھے۔لیمب لکھتی ہیں کہ مہاجن اور وی پی مینن
27 اگست کو بزریعہ جموں پہنچے اور دو بجے کو
ساری کاروائی مکمل ہوئی اور اگلے روز بھارتی
افواج نے سری نگر پر لینڈ کیا اور پھر دیکھتے
ہ دیکھتے وہ کشمیر کی مالک بن بیٹھیں اور یہ
سلسلہ اج تک جاری و ساری ہے۔ہری سنگھ نے جونہی
بھارت کو دادا بنانے کا اعلان کیا تو کشمیریوں
نے ہتھیار اٹھا لئے۔غیور قبائلی سربکف ہوکر
سری نگر جاپہنچے ۔سری نگر مجاہدین کے قدموں سے
کچھ ہی فاصلے پر تھا مگر نہرو نے نئی چال چلی
اور بھارت نے
uno
میں میں جنگ
بندی کی اپیل دائر کردی اور پھر جنگ بندی کا
اعلان کردیا گیا۔
uno
نے
اگست1948 میں بھارت کو حکم دیا کہ کشمیر میں
رائے شماری کروائی جائے تاکہ وہ خود فیصلہ
کریں وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ملک کے
ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ مگر نتیجہ ڈھاک کے
وہی تین پات۔
uno
کی یہی قرارداد
عالمی ضمیر کو پچھلے64 سالوں سے جھنجوڑ رہی ہے
کہ بھارت کو سلامتی کونسل کے فیصلے ر عمل
درامد کا پابند کیا جائے مگر نہ تو مغربی دنیا
اور نہ ہی یو این او کو شرم اتی ہے کہ وہ
قراداد پر عمل کروائے۔1950 میں اسٹریلیا کے
چیف جسٹس سراوون ڈکسن نے بھارت اور پاکستان کا
دورہ کیا۔ڈکسن نے اقوام متحدہ کو نئی تجویز دی
کہ کشمیر کا فیصلہ ابادی اور علاقوں کو پیش
نظر رکھتے ہوئے رائے شماری کروائی جائے ۔جن
علاقوں کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہاں کشمیر
ی مستقبل میں دونوں میں سے کس کے ساتھ رہنا
چاہتے ہیں کو ووٹنگ کے بغیر پاکستان یا بھارت
میں شامل کردیا جائے اور صرف متنازعہ علاقوں
وادی کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں رائے شماری
کروائی جائے ڈکسن فارمولے میں کشمیر کا خوش کن
حل موجود تھا جسے پاکستان نے قبول کرلیا مگر
نہرو مکر گیا۔ شیخ عبداللہ نے تجویز دی کہ10
سال کے لئے کشمیر کو اقوام متحدہ کی نگرانی
میں دے دیا جائے یوں ایک طرف کشمیریوں کے
جذبات مندمل ہوجائیں گےتو دوسری طرف اسی عرصہ
میں استصواب رائے بھی مکمل ہوجائے گا۔اس تجویز
پر شیخ عبداللہ وزارت عظمی کے تخت سے برطرفی
کا تحفہ لیکر پابند سلاسل بنادئیے گئے۔
شیخ1964 میں رہا ہوئے جو تین نکاتی فارمولہ کے
ساتھ پاکستان ائے۔اول ۔کشمیر کو بھارت اور
پاکستان ے مشترکہ کنٹرول میں دیا جائے۔دوم
دونوں ملک اپنے زیر کنٹرول کشمیری علاقوں کو
زیادہ سے زیادہ خود مختیاری دیں سوم۔بھارت
پاکستان اور کشمیر پر کنفیڈریشن قائم کی جائے۔
چونکہ ان تجاویز میں کشمیریوں کے لئے خاص چارم
نہیں تھا اسی لئے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جنگوں کے علاوہ
درجنوں مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر بھارت کشمیر کو
متنازعہ مسئلہ تصور ہی نہیں کرتا۔ مسئلہ کشمیر
برصغیر پاک و ہند کو ایٹمی جنگ کے دانے پر
کھڑا کردیا ہے اور جب تک مسئلے کی گھتیاں سلجھ
نہیں جاتیں تب تک دونوں ملک نہ تو اچھے دوست
بن سکتے ہیں اور نہ ہی ہمسائے۔1972تا1989تک
uno
نے جتنی
قراردادیں پاس کی ہیں ان میں درج ہے کہ ازادی
ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔بھارت اور مغربی دنیا
کشمیریوں کو دہشت گردی کے ترازو میں تولتی ہے۔
ایسٹ تیمور کو یو این او کے اسی لوگو کے تحت
ازادی ملی ہے۔ کرہ ارض پر کئی ایسی قومیں اباد
ہیں جن کی حریت پسندی کو دہشت گردی نہیں کہا
جاتا۔ کشمیری تو اپنی بنیادی ازادی کے لئے
بھارتی افواج ے ساتھ معرکہ ارائی کررہی ہے۔
بھارت کو اپنی موجودہ عید ازادی پر سوچنا
چاہیے کہ کشمیریوں کو مذید غلام بنائے رکھنا
جموریت انسانیت اور صداقت کی توہین ہے۔ بھارت
وسیع القلبی اور فراخ دلی کا ثبوت دیکر کشمیر
میں بھارتی افواج کے مظالم کو روک دے اور
کشمیریوں کو انکی خواہش کے مطابق ازادی دی
جائے۔یواین او کی چھ دہائیوں پہلے پاس کردہ
قرارداد اج بھی تنازعہ کشمیر کے لئے اکسیر
نسخے کا درجہ رکھتی ہے۔بھارت قوت کے زور پر
کشمیریوں کو حق خود ارادیت کی تحریک سے دور
نہیں کرسکتا۔ بھارتی شہہ دماغ کشمیر میں سب
اچھا ہے کی رٹ لگاتے رہتے ہیں مگر اصل صورتحال
کی عکاسی بھارتی وزارت داخلہ چدم برم نے کی
ہے۔چدم پرم نے بھارتی پارلیمان میں ماتم کرتے
ہوئے سچ کا جھنڈا بلند کردیا۔وزیرداخلہ نے
ایوان کو بتایا کہ کشمیر کے ہر کونے میں ازادی
کا شور گونج رہا ہے۔بھارت مسئلہ کشمیر کو
سیاسی انداز میں حل کرے۔کشمیری حریت پسندوں کو
دہشت گرد کہنے والی بھارتی فورسز کے سرخیلوں
اور کانگرس حکومت کے پالیسی ساز انتہاپسندوں
کو اپنے وزیرداخلہ کے بیان پر غور کرنا چاہیے
ورنہ ازادی کی جو چنگاری کشمیری عوام کے دلوں
میں سلگ رہی ہے وہ کسی وقت اتش فشاں کا روپ
دھار کر پورے بھارت کو بھسم کردے گی۔
|