اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-mirzayasir4@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔12-09-2010

بہترمعاشرہ قائم کرنے کے لیے پاکستانیوں کی ذمہ داریاں
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ یاسر عمران مرزا
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں بگاڑ عروج پر ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن جھوٹ فریب اور دغا شامل ہے۔ انہی عوامل کی وجہ سے آج پاکستان ایک زخمی کی سی حالت میں پڑا ہے۔ جس ملک کو ہم نے دنیا کی عظیم ترین مملکت بنانے کا وعدہ ہم نے اپنے محبوب بانی پاکستان قائد اعظم سے کیا تھا وہ آج معاشرے کے بدترین بگاڑ تک پہنچ چکا ہے۔
بلاشبہ ہمیں ہی پاکستان کو سنبھالنا ہے، ہم سب پاکستانی مل کر وہ کر سکتے ہیں جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہمیں آنکھ اٹھا کر اقوام متحدہ جیسے کمزور ترین ادارے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ آئی ایم ایف سے مزید قرضے کی بھیک مانگنے کی محتاجی ہے۔ بلکہ ہمیں خود ہی پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے وفا کی شروعات کرنی ہو گی اپنے ملک کے ساتھ۔ ہمیں اپنا مفاد پیچھے چھوڑنا ہو گا، اس کا مفاد آگے رکھنا ہو گا۔ اس کے لیے اگر ہم میں سے ہر کوئی آج سے اپنی زندگی میں ایمانداری، سچ اور اچھے اخلاق کی شروعات کر دے تو یقین مانیے پاکستان بچانے کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ہم نے لڑ مر کر جج بحال کرائے تا کہ ہم انصاف پا سکیں لیکن انصاف ابھی ملنا شروع نہیں ہوا۔ زندگی کے ہر شعبے میں بدعنوانی موجود ہے۔ اگر ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو ہم سب کے اندر ایک ایک جج بیٹھا ہوا ہے۔
اگر ہم ایک سرکاری افسر ہیں تو ہمارے اندر ایسا جج ہے جس کے سامنے رشوت آتی ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو رشوت کا انتخاب کر لے یا رزق حلال کا انتخاب کر کے جائز کام کو جائز طریقے سے کرے۔اگر ہم ایک ڈاکٹر ہیں تو ہمارے سامنے ایسا کیس آتا ہے جس میں ایک مریض کا مرض تھوڑا سا ہے تب بھی ہمارے سامنے دو راستے ہیں، یا تو اس مریض کو صحیح دوا دے کر اس کا مرض جھٹ سے ٹھیک کر دیں، یا پھر اسے سے غلط بیانی کر کے مرض کو لاعلاج یا موذی ترین قرار دے دیں اور اسے ٹیسٹ پہ ٹیسٹ لکھ دیں اور اپنے کلینک کا مال پانی بنوا لیں۔
اگر ہم ایک لکھاری ہیں اور میڈیا سے وابستہ ہیں، تب بھی ہمارے پاس دو راستے ہیں، صدر اور حکومت وقت کی تعریف کرتے رہیں جھوٹ پہ جھوٹ لکھتے رہیں، اور نوٹ، پلاٹ اور جاگیریں بنا لیں، یا پھر سچ لکھ کر عوام کو صحیح حالات سے آگاہ کریں۔
اگر ہم استادہیں تو ہمارے پاس دو راستے ہیں، کلاس کے وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، بچوں کو اپنے گھروں کے کام نمٹانے بھیج دیں، جب ان کے امتحان کا وقت ہو تو اپنے زیادہ فرماں بردار بچوں کو نقل کی سہولت مہیا کر کے اچھے نمبر دلوا دیں، دوسرا راستہ یہ کہ کلاس کے وقت پڑھائیں اور امتحان کے وقت سب کو انصاف سے نمبر دیں۔
اگر ہم تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہیں تو بھی ہمارے پاس دو راستے ہیں، گھٹیا میٹریل لگا کر عمارت کھڑی کر دیں اور بے پناہ منافع وصول کرلیں اس بات سے قطع نظر کہ وہ عمارت کسی بھی آفت کی صورت میں اپنے مکینوں کے لیے موت کا سامان تو نہیں کر دے گی، یا پھر اچھا میٹیریل لگا کر جائز منافع کمائیں اور کسی کی جان سے نہ کھیلیں۔
اگر ہم پولیس والے ہیں تب بھی ہمارے پاس دو راستے ہیں، ہم سیاستدانوں کے غنڈے بن جائیں اور مجرم کو چند سکے لے کر چھوڑ دیں یا عوام کے خادم بن کر مجرم کو سزا اور بے گناہ کو رہائی دے دیں۔
غرض کہ ایک وکیل،ایک کلرک، ایک مزدور،ایک کسان،ایک دکاندار،ایک میڈیکل سٹور چلانے والا اور ایک ڈرائیور ہر کوئی اپنی روز مرہ زندگی میں بار بار غلط اور صحیح کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر ہم سب لوگ اپنے اندر کے جج سے انصاف کروائیں تو یہ معاشرہ ایک مثالی معاشرے کی شکل اختیار کر لے گا۔
معاشرے کا ہر فرد معاشرے کی اجتماعی حالت کا ذمہ دار ہے،لوگ کہتے ہیں زرداری 10 پرسنٹ ہے۔ میں کہتا ہوں ،نہیں، ہم سب 10 پرسنٹ ہیں، ہمیں جہاں درست اور غلط کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اپنا ایمان کو ڈگمگانے سے بچانا ہوتا ہے اور جھوٹ کے راستے سے بچنا ہوتا ہے وہاں ہم ڈگمگا جاتے ہیں، رزق حرام کو رزق حلال سمجھ لیتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط کیے جائیں جو منصب کے اہل نہ ہوں ، جو کرپشن کا خاتمہ نہ کر سکیں، جو لوگوں کو انصاف نہ دلا سکیں اور ملک کو قرضے کے بوجھ تلے دبا دیں۔
بلاشبہ پاکستان کی حفاظت کے لیے دعائیں بھی ضروری ہیں اور اللہ تعالی کی مدد بھی لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، محنت، پختہ ایمان ،قلیل رزق حلال پر قناعت ، اور اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا، یہ سب تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اسلامی ضابطہ اخلاق اپنا کر ایک مثالی معاشرہ قائم کریں جو اللہ کے دین اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہو تب ہمارا پاکستان ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرے گا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved