اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
Email:-ceditor@inbox.com

Telephone:-1-514-970-3200

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

<<<سابقہ مضامین<<<

تاریخ اشاعت:۔30-08-2011

تین گروہ

2010 سورہ الفاتحہ میں تین گروہوں کا بیان ہے۔ (۱) وہ جو صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے (۲) وہ جو صراط مستقیم سے دور رہ کر غضب الٰہی کا شکار ہوئے۔ (۳) وہ جنہوں نے صراط مستقیم پا کر چھوڑ دیا۔ سورہ البقرہ کے آغاز میں بھی تین گروہوں۔ متقین، کافرین اور منافقین کا بیان ہے۔ متقین وہ ہیں جو ایمان و عمل کی دولت سے بہرہ یاب ہیں یہ لوگ مقصد حیات میں کامیاب ہیں۔ کافرین وہ ہیں جن کے قلوب اور سماعت پر مہر لگ چکی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے‘ یہ لوگ صراط مستقیم پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کیلئے عذاب عظیم ہے۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، مگر وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔
فرمایا انکے دلوں میں (منافقت) کا مرض ہے اور یہ مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کافروں اور منافقوں کا بیان ختم کرنے سے پہلے دو مثالیں دی گئی ہیں۔ آیات ۷۱،۸۱ میں کافروں کے بارے میں مثال ہے۔ ایک شخص نے آگ روشن کی جس سے سارا ماحول چمک اٹھا مگر اللہ تعالیٰ نے کفار کا نور (بصیرت و بصارت) سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا گویا وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ ہدایت کی راہ کی طرف واپس نہیں مڑتے۔ اس سے قبل آیہ ۷ میں کافروں کے بارہ میں فرما چکے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ قلوب سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں۔ کان سنتے نہیں آنکھیں دیکھتی نہیں۔ آیہ ۷ اور آیہ ۸۱ کے مضامین کی مماثلت واضح ہے۔ آیات ۹۱، ۰۲ میں منافقین کے بارے میں مثال ہے۔ آسمان سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہے اس میں تاریکیاں بھی ہیں اور (ساتھ) بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک بھی۔ منافقین موت کے ڈر کے مارے پر ہول آوازوں سے بچنے کیلئے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں اور (نہیں سمجھتے کہ) اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ قریب ہے کہ برق ان کی بینائی اچک لے۔ جب بجلی چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں (تھوڑا سا) چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے، تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی شنوائی اور بینائی (بالکل ) سلب کر لے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ قرآن میں وحی کو کئی جگہ بارش سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے قلوب کی کھیتیاں ہری ہوتی ہیں۔ ان میں اعلیٰ افکار اور بلند جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ روحانیت کے پھول کھلتے ہیں۔ اخلاق کے پھل پکتے ہیں۔ مگر بارش کے ساتھ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج بھی ہے۔ یعنی اس راہ میں سخت مشکلات بھی ہیں۔ منافقین کو ہر وقت موت کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team